Baaz Amad







































باز آمد
(مع آمد آمد)

مسلم سلیم

انتساب

شریکِ حیات اسماء فاروق اور دونوں بیٹوں عطاء اﷲ فیضان اور عبدالاحد فرحان کے نام


مسلم سلیم - ۲۱ویں صدی کا شاعر
ایک دن اچانک انٹرنیٹ سرفنگ کے دوران میری نگاہ ایک ویب سائٹ muslimsaleem.wordpress.com پر ٹھہر گئی ۔ یہ بھوپال میں مقیم شاعر ، افسانہ نگار اور صحافی مسلم سلیم کی ویب سائٹ تھی۔ میں کئی گھنٹوں تک اس بلاگ کی سرفنگ کرتا رہا۔ اس میں مسلم سلیم نے صرف اپنی شاعری اور شخصیت کے بارے میں ہی نہیں لکھا بلکہ اردو دنیا کے ہزار ہا شعراء و ادبا کی مختلف ڈائریکٹریز ترتیب دے کر تعارف و تصاویر پوسٹ کی ہیں۔ میرے نزدیک اردو دنیا میں اتنا بڑا کام پہلے کبھی نہیں ہوا۔ بعد میں پتہ چلا کہ مسلم سلیم نے khojkhabarnews.com, muslimsaleem.blogspot.com, poetswriters.blogspot.com, اور کئی دیگر ویب سائٹس کے ذریعہ بھی اردو کے اس بیش بہا اور مخلصانہ خدمت کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ بہر حال اس تحریر سے مسلم سلیم کی ویب سائیٹس کی تعریف مقصود نہیں بلکہ ان کی اس شاعری سے ہے جسکا بیشتر حصہ ۲۰ ویں صدی میں خلق ہوا لیکن جسے بجا طور پر ۲۱ویں صدی بلکہ اس سے بھی آگے کی شاعری کہا جا سکتا ہے۔
میں ان کی شاعری کے اس جدید لب و لہجہ سے اس قدر متاثر ہواکہ میں نے انٹرنیٹ پر انگریزی میں مسلم سلیم کی شاعری پر نہ صرف سیر حاصل مضامین تحریر کئے بلکہ ان کی کئی غزلوں کا انگریزی ترجمہ ء کل انٹر نیٹ پر پوسٹ کیا۔ میں نے اپنے ۲۴ اپریل، ۲۰۱۱ کے مضمون
Muslim Saleem and revelation of his art میں لکھا تھا ’’ اگر بین الاقوامی اردو حلقہ مسلم سلیم کی شاعری کا حظ اٹھانے سے محروم رہ گیا تو یہ ایک از حد شرمناک بات ہوگی۔ مسلم سلیم شاعری برائے شاعری کے قائل نہیں۔ اور تبھی قلم اٹھاتے ہیں جب ان کے سینے میں موجزن جذبات ان کو تحریک دیتے ہیں اور وہ گزشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کے بحرانات و تجربات کو اس تحریک کی کڑی میں خوبصورتی اورچابکدستی سے پروتے چلے جاتے ہیں۔مسلم سلیم کے اشعارکو سرسری طور پر لینے والا خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو اس کے عمق سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔ زندگی بھر اسٹڈی روم میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے والے جو سرد و گرم زمانہ چشیدہ نہ ہوں مسلم سلیم کی شاعری کی depth تک پہنچنے میں ہو سکتا ہے کہ ناکام ہو جائیں لیکن ہم جیسے لوگ جو زبردست جدو جہد کے بعد امریکہ، یوروپ، اور دیگر بیرونی ممالک میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں، مسلم سلیم کے فن اورتجربے کی گہرائی کو مسmiss نہیں کر سکتے۔‘‘ اس سے قبل میں نے ۱۰ اپریل ،۲۰۱۱ کو تحریر کردہ اپنے مضمون
Muslim Saleem:An Analysis میں مسلم سلیم کے بارے میں لکھا تھا۔
’’ مسلم سلیم کا تعلق اس نسل سے ہے جو آزادئ ہند کے فوراً بعد وجود میں آئی تھی ۔ تلاشِ ذات اس نسل کا سب سے اہم مسئلہ تھا اور اسکے لئے لمحہۂ فکریہ یہ تھا کہ برق رفتاری سے گزرتی جا رہی ۲۰ویں صدی میں وہ کیا اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہی وہ دور تھا جب مسلم سلیم پہلے علی گڑھ اور پھر الہٰ آباد یونیورسٹی میں اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور ہندی کی اپنی صلاحیتوں کو جلاِ دے رہے تھے۔ تحصیل علم کے دوران ہی مسلم سلیم نے معاشرہ کی انہی نئی لہروں کی اپنی شاعری اور افسانوں کا ایجنڈا بنا لیا تھا۔ گزشتہ ۳۰ برس کو دوران انگریزی، اردو اور ہندی میں صحافت سے ان کے قلم کی کاٹ اور بھی گہری ہو گئی ہے۔‘‘ ؂
میں اس مضمون میں مسلم سلیم کے اشعارصرف چند اشعار نقل کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی میرے خیالات سے متفق ہو جائیں گے۔ مسلم سلیم کو استعاروں اور علامتوں پر جو عبور حاصل ہے اس سے ان کی شاعری ازحد تہہ دار ہوگئی ہے۔ ایک ہی شعر سے معنیٰ و مفہوم کے سوتے پھوٹے پڑتے ہیں۔ ؂
دھوپ میں دیوار بھی تھی کسکو تھا اسکا خیال۔۔۔ استفادہ ساےۂِ دیوار سے سب نے کیا
یہ اس شخص کے المیہ اور بے چارگی کا پر اثر بیان ہے جس سے ایک زمانہ مستفید ہوتا ہے لیکن یا تو اس ایثار سے بے خبر ہے یا دیدہ ؤ دانستہ اس کی داد نہیں دیتا کہ اس نے لوگوں کو آلام و مصائب سے محفوظ رکھنے کے لئے آفات و کرب کا کس قدر سامنا کیا ہے اور وہ بھی کوئی شکوہ زبان پر لائے بغیر۔احسان ناشناسی اور بے قدری ہمارے دور کا ایک بڑا المیہ ہے اور غزل کے دو مصرعوں میں اسے اتنی چابکدستی اور فنّی مہارت کے ساتھ نظم کرنے پر مسلم سلیم بے شک داد کے مستحق ہیں۔ ؂
بچوں کو ہونے دیجئے احساس دھوپ کا۔۔۔ نشو و نما نہ روکئے، سایہ نہ کیجئے
ایک بار پھر دھوپ اور سایہ کی علامتیں ایک بہترین شعر کی تخلیق میں ممد ہوئی ہیں۔ جدوجہد اور تجربات و حوادث زندگی میں آگے بڑھتے رہنے اور اسے سنوارنے کے لئے از حد ضروری ہیں۔ ضرورت سے زیادہ پدری یا مادری شفقت میں پلنے والے بچے زندگی میں ذہنی و شخصی ارتقاء کی کئی منازل طے کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس لئے تجربے ان کے لئے تریاق اور سایہ سنگِ راہ ہے۔ یہ مضمون غزل کے پیرائے میں مسلم سلیم سے پہلے کسی نے نہیں باندھا ہے۔ ؂
تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گے۔۔۔ میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی
اس شعر میں دھوپ کا لفظ تو نہیں لیکن اس کا شدید احساس موجود ہے۔ سایہ اور دیوار مل کر پھر جادو جگاتے ہیں اور ایک المیہ اے حسین پیرائے میں بیان ہو جاتا ہے۔ شاعر ایک ایسے شخص کی کیفےئات کو بیان کرتا ہے جو مسلسل طور پر اخوت، شفقت، دوستی اور کرم سے محروم ہے۔ یہ احساسِ محرومی تب اور بھی بڑھ جاتا ہے جب وہ کسی ایسے شخص کی طرف بڑھنے کی سعی کرتا ہے جس میں یہ اوصاف پائے جاتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس شخص سے کچھ استفادہ کر سکے وہ شخص کوچ کر جاتا ہے اور طالبِ فیض تشنہ کا تشنہ رہ جاتا ہے۔ ؂
سائباں ساتھ کس کے چلے ہیں ۔۔۔پھر وہی دھوپ تھی، قافلہ تھا
قافلۂِ ذات کو تجربات و حوادث کی تیز دھوپ میں چلتے ہی رہنا پڑتا ہے کیونکہ محافظت اور تسکین دینے والے ایک حد تک ہی ساتھ دے سکتے ہیں اور رہگزارِ زیست میں ان سے صرف اسی قدر مستفید ہوا جاسکتا ہے جس طرح راہ میں کوئی سائبان یا کوئی سایہ مل جائے اور انسان کچھ دیر وہاں رک کر آرام کر لے۔ آگے کا سفر تو اسے سائبان سے آگے بڑھکر صعوبتوں اور دشواریوں کو جھیل کر ہی طے کرنا پڑیگا۔
یہ اشعار میں نے مسلم سلیم کے گذشتہ مجموعہ آمد آمد سے لئے تھے۔ اب میں ان کے زیرِ نظر مجموعہ سے منتخب چند تاریخ ساز اشعار کی نشاندہی کر رہا ہوں۔
بہار لائے تھے یہ انکا احترام کرو۔۔۔خزاں رسیدہ درختوں کو بھی سلام کرو
پاس ہو کے بھی ہم سے وہ خفا خفا سا ہے ۔۔۔دوریاں ہیں میلوں کی فاصلہ ذرا سا ہے
رنگ آتے جاتے ہیں کتنے اسکے چہرے پر ۔۔۔حسن اسکا اب دیکھو جب کہ وہ خفا سا ہے
اس لئے جیت کر ہر اک میداں بڑھ گئے رزم گاہ سے آگے
ہم نے اپنی نگاہ رکھی تھی دشمنوں کی نگاہ سے آگے
پہلے تھا ملک میں بس اک ظالم سب جسے بادشاہ کہتے تھے
اب تو اپنے ہیں سینکڑوں آقا ظلم میں عالی جاہ سے آگے
کس قدر پانی ہے پہلے اس کا اندازہ کیا۔۔۔بند پھر اپنی مدد کا اس نے دروازہ کیا
دہکتی ریت پر پھر میں نے دیکھا۔۔۔سمندر میری ٹھوکر سے نکلنا
قوم کی زبوں حالی پر بھی مسلمؔ سلیم نے بے حد چابک دستی سے روشنی ڈالی ہے:۔
یاد ہے سارا جہاں بھول گئے ہیں خود کو۔۔۔سوچتے ہیں کہ کہاں بھول گئے ہیں خود کو
جیت لے گا ہمیں دشمن بڑی آسانی سے۔۔۔ہو گیا سب پہ عیاں بھول گئے ہیں خود کو
زیرِ نظر مجموعے میں مسلمؔ سلیم نے دہشت گردی کے خلاف کافی موثر اشعار شامل کئے ہیں۔یہاں میں اس موضوع پر انکی ایک مکمل غزال نما نظم نقل کر رہا ہوں:
ہو اگر عاجز تو پھر حاجت روا بنتے ہو کیوں۔۔۔کام ہے یہ تو خدا کا تم خدا بنتے ہو کیوں
درسِ رحمت بھول کر کیوں بن گئے بیدادگر۔۔۔سب کے حق میں پیکرِ جوروجفا بنتے ہو کیوں
ہر قدم کج فہمیاں ہیں، ہر قدم گمراہیاں۔۔۔حق شناس و حق نگر اور حق نما بنتے ہو کیوں
ہو اگر مقدور رکھّو ساتھ کوئی راہبر۔۔۔راہ گم گشتہ عزیزو! رہمنا بنتے ہو کیوں
فرض مسلمؔ پر قیامِ امن ہے یہ جان لو ۔۔۔یوں کھلونا بے جہت جذبات کا بنتے ہو کیوں
اسی موضوع پر چند اور اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ جانے کس جگہ مل جائے دہشت۔۔دعائیں پڑھ کے سب گھر سے نکلنا
بھرے گا پیکرِ تصویر میںِ خوں ۔۔۔محبت کا وہ منظر سے نکلنا
بہشت ملتی ہے دہشت سے اور تشدّد سے۔۔۔نکال ڈالے دماغوں سے یہ سنک کوئی
اڑا کے اوروں کو خود کو بھی مار لیتے ہیں۔۔۔وہ سوچتے ہیں کہ اس میں ثواب ہوتا ہے
اے کشت و خون کے داعی ذرا بتا تو سہی ۔۔۔کہ ان دھماکوں سے کیا انقلاب ہوتا ہے
اس مجموعہ میں رومانی شاعری اور قطعات کی شمولیت بھی معنی خیز ہے کیونکہ پہلے مجموعے میں ان کی تعداد برائے نام تھیْ :
وہ مجھ کو سمجھنے میں جو ناکام رہا ہے۔۔۔خود مجھ پہ ہی اس جرم کا الزام رہا ہے
یہ جسم کرتا ہے اکثر بہت سوال تر۱۔۔۔رگوں میں دوڑنے لگتا ہے جب خیال ترا
قدم بچا کے رکھوں میں اگر تو کیسے رکھوں۔۔۔ہر ایک سمت تو پھیلا ہوا ہے جال ترا
تب مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے مخمل یاد کا ۔۔۔سر پہ جب سایہ فگن ہوتا ہے بادل یاد کا
جان و دل میں جب مہک اٹھتا ہے صندل یاد کا۔۔۔سو غموں کو دور کر دیتا ہے اک پل یاد کا
آج صندوق سے دیرینہ زمانے نکلے۔۔۔ڈائری کھولی تو یادوں کے خزانے نکلے
ایسے ماضی کی پھواروں نے بھگویا ہم کو۔۔۔جیسے بچہ کوئی بارش میں نہانے نکلے
رات بھر چنتے ہیں اکثر لعل و گوہر خواب کے
صبحدم روتے ہیں ہم ٹکڑے اٹھا کر خواب کے
خواب کی جانب چلے پیغام لے کر خواب کے
یوں اڑے دل کی منڈیروں سے کبوتر خواب کے
جان و دل اپنے ہیں صدقے اس منور خواب کے
جاگتی آنکھوں میں رہنے دو وہ منظر خواب کے
مسلم سلیم نے مغربی ممالک اور میڈیا کی فحاشی اور غلط بیانی کا راز بھی فاش کیا ہے:
مغربی بازاریت کی دین یہ ہیجان ہے
حسنِ نسواں اب فقط تفریح کا سامان ہے
مکر آرائش ہے اسکی،جھوٹ اسکی شان ہے
مت بہک جانا، یہ گورا میڈیا شیطان ہے
خود تو گویا قتل و غارت، ظلم سے انجان ہے
ہر برائی کے لئے اسلام پر بہتان ہے
اُس کی ہرزہ گوئیوں پر مہرِ استحسان ہے
ہم نے گر کچھ کہہ دیا تو ہر طرف طوفان ہے
حق پہ جینا ، حق پہ مر مٹنا ہی اسکی شان ہے
سچ تو یہ ہے دہر میں مسلم ہی بس انسان ہے
مسلم سلیم کا تقریباً ہر شعر ایسی ہی تہہ داریوں سے مملو ہے اس کے لئے ایک علیحدہ کتاب درکار ہے اور اس مضمون کی طوالت کے خوف سے میں اسے یہیں ختم کرتا ہوں لیکن چلتے چلتے ایک بار پھر میں مسلم سلیم کی اردو ویب سائٹس اور ویب ڈائریکٹریز کا ذکر کروں گا اور یہ کہنے کی جسارت بھی کروں گا کہ اس کارنامہ کے سبب مسلم سلیم کو بابائے اردو مولوی عبدالحق کے پائے کی شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر شہزاد رضوی
سابق پروفیسر ، واشنگٹن ، ڈی ۔سی ، یو۔ایس ۔اے
















مسلم سلیم ۔ وجد آفریں اشعار کا خالق

بھوپال میں جب۳۰ سال قبل میری ملاقات مسلم سلیم سے ہوئی تھی تو سامنے ایک خوش شکل، وجیہہ، با شعور اور سنجیدہ نوجوان محو گفتگو تھا جو بہت جلد گھل مل گیا تھا۔ چند ملاقاتوں میں یہ بھی پتہ چلا کہ وہ ایک افسانہ نگار بھی ہے۔ ان دنوں راقم الحرف عصری افسانوں کو تنقیدی زاویہ نظر سے پرکھنے میں منہمک تھا۔ اس عالم میں مسلم سلیم جیسے بالغ نظر نوجوان کے دو ایک افسانے اسی کی زبان سے سنے تو یہ بھروسا ہونے لگا کہ میری تنقیدی کاوشیں شائد ضایع نہ جاےءں۔ اتفاق سے مسلم سلیم کی جائے رہائش میرے گھرکے پاس ہی تھی اور وہ اکثر ملنے چلے آتے تھے۔ جلد ہی میرا تبادلہ بھوپال سے دلّی ہو گیا اور مسلم سلیم سے رابطہ ٹوٹے ہوئے تقریباً چوتھائی صدی گزر گئی۔ الہٰ آباد میں جب ڈاک سے ان کا شعری مجموعہ موصول ہوا تو مسلم سلیم کی نئی تخلیقی فضا نے حیرت میں ڈال دیا۔
زیرِنظر مجموعۂِ کلام کے مشمولات پر تبصرہ کرنے سے پہلے مسلم سلیم کے اولین مجموعے ’’آمد آمد کا ذکر اور تجزیہ لازمی ہے تاکہ قاری ان کے شعری مزاج سے کما حقہُ واقف ہو جائیں۔
مسلم سلیم کے مجموعے ’’آمد آمد‘‘ کا شعری شعور واقعی ’آمد آمد‘ ہے۔ انھیں کے بیان کے مطابق اس میں ’’ وجد کی سی کیفیت طاری ‘‘ و ساری ہے۔ وہ کہتے ہیں ، ’سطحی شاعر الفاظ سے خیال تک سفر کی سعی کرتا ہے۔ یہ سفر عرف عام میں آورد کہلاتا ہے، جبکہ غیر معمولی شاعر خیال کو لفظی پیکر عطا ء کرتا ہے‘۔
ان کا مصرع ’’ نیند بھی میرے لئے عالم بیداری ہے‘‘ اسی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے۔ میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ شاعری اس وجد آفریں حالت انجذاب کے بغیر شاعری نہیں ہوتی۔ پھر بھی میرا تصور ہے کہ اگر لفظ کو محسوس کیا جائے، روشن کر دیا جائے، تو اس کا قدیم تاریخی حسن علامتی پیکر بن کر نمودار ہوتا ہے اور شعری سفر میں زاد راہ بن جاتا ہے۔ اس صورت میں خیال کی جگہ پر لفظ کا برتاؤ شعری منظر کی طرح جلوہ نما ہو جاتا ہے( عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا)۔ یہ لفظ شعور کے دروازے سے داخل ہوکر لاشعور کی داخلیت سے خراج لیتا ہے۔ یہ وہ صورت ہوتی ہے جہاں لفظ قائم ہوتا ہے البتّہ ’’ جثّہ تحیئر کو لفظ میں جکڑنے‘‘ اور بے اعتماد نقالی کے لئے لفظ کو چمٹے سے پکڑنے اور بٹھانے کی قطعی ضرورت نہیں پڑتی۔ چنانچہ ’خیال‘ انفرادیت کا اور ’لفظ‘ معاشرے کے اجتماعی شعور اور لا شعور کا حصہ ہے جو پیدائش سے سماعت، بصارت اور حسیت کی راہ سے داخل ہوکرہماری بصیرت کا حصہ بن جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں خیال کی تحصیل کے شانہ بہ شانہ لفظیاتی علامتی اضافیت کو بھی شعری توانائی (ENRICHMENT) کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔
مسلم سلیم اپنی غزلوں میں ’’ تتلیاں بھی پکڑتے ہیں‘‘ اور خوابناک لا شعور میں بہ سرعت غوطہ زن بھی نظر آتے ہیں۔ آکر الذکر کیفیت اس سہولت سے پیدا ہوتی ہے کہ شاعر کو شائد خبر بھی نہیں ہوتی کہ وہ سمندر کی کن موجوں کی غواصی کر رہا ہے۔ مسلم سلیم کی تخلیقی فضا میں فرائڈ کی نفسیاتی اپج لا پتہ ہے۔ اس کی جگہ پر یونگ(C.G.JUNG) کا اجتماعی لا شعور جا بہ جا جھانکتا ہے۔ ان اشعار پر توجہ کیجئے:
زندگی خوفناک جنگل ہے
اور سانپوں کے ساتھ رہنا ہے
چاند کیسا یہ ظلمت میں نکلا
ضو فشاں تیرگی ہو گئی ہے
پانی ہیں، بلبلہ ہیں، برستی گھٹا ہیں ہم
دریا ہیں، آب جو ہیں، سمندر ہیں، کیا ہیں ہم
وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے
حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑیں تمام
کوئی فتنہ کوئی شورش کوئی ہنگامہ ہو
مجھ کو تڑپائے، مرے جسم کے اندر جاگے
تھی کڑی دھوپ تو کب ان کو پریشانی تھی
برف پگھلی تو بہت چونک کے پتھر جاگے
سج گئی بزمِ انجم یکایک
منتشر ایک نقطہ ہوا تھا
پرسکوں دن ہے کوئی شور نہیں چیخ نہیں
رات ہولے تو گناہوں کا سمندر جاگے
محدود وسعتیں بھی مجھے دے گئیں شکست
صحرا بوجہ لغرشِ پا بے کراں سا ہے
ہیں ہمارے جاگتے لمحوں پہ حاوی پستیاں
آنکھ لگ جائے تو پھر ہم آسمانوں میں چلیں
کوئی پلٹ کے آتی نہیں، گونجتی نہیں
چٹانیں پی رہی ہیں ہماری صدائیں سب
قدرت نے چٹانوں کے ہرے کاغذ پر
تالابوں کے پانی سے لکھا ہے بھوپال
درج بالا لاشعور سے ملحق الفاظ جنھیں لکیر کھینچ کر نمایاں کیا گیا ہے متعلق شعر کی روح رواں بن گئے ہیں۔
یہ چند اشعار میں نے یہاں وہاں سے اٹھا لئے ہیں ورنہ مسلم سلیم کی بیشتر شاعری اجتماعی لاشعور (COLLECTIVE UNCONSCIOUS)، ایگو(EGO)، (روحوں کے اختلاط میں مشکل نہیں کوئی ۔۔اس کا حسین جسم مگر درمیاں سا ہے)، اور مافوق ایگو(SUPER EGO ) (رشتوں کی استواری میں لازم ہے احتیاط ۔۔۔ اس کو خبر نہیں ہے کہ اس سے خفا ہیں ہم) کی جھلکتی کشش سے پڑھنے یا سننے والے کو ازلی لہروں کے سپرد کر دیتی ہے۔
یہ تو خواب جیسا لا شعوری زاوےۂِ نظر ہوا جس سے مسلم سلیم کی غزلوں پر ہر طرف سے روشنی پڑتی ہے۔ اس سے ہٹ کر صرف شعری اعتبار سے دیکھا جائے تو بھی شاعر کا وسیع شعری ادراک فنکارانہ طور پر متوجہ کرتا ہے۔
مدتوں سے ایک جہانِ وہم بھی آباد ہے
ہم اکیلے ہی نہیں ہیں فاصلوں کے درمیاں
ملاح کو کھینے کا سلیقہ بھی نہیں تھا
کچھ یوں بھی ہے پہلے ہی سے بد نام سمندر
اے تشنہ لباں مژدہ ہے آرام سے بیٹھو
خود جوئے رواں سوئے طلبگار چلے گی
جمع کرتے رہو شیرازۂِ اسبابِ حیات
اس کی تقدیر بکھرنا ہے بکھر جائے گا
تمام آرزوےءں دوزخوں کی نظر ہو گئیں
تمام عمر جنتوں کی راہ ڈھونڈتا رہا
آج پستی بلندی پہ مسلمؔ ؔ
کیسے ہنس کر کھڑی ہو گئی ہے
اب آؤ چلو ہم بھی ذرا دیکھیں تماشا
ہمسائے کے گھر دیر سے کہرام بہت ہے
ہیں ہمارے جاگتے لمحوں پہ حاوی پستیاں
آنکھ لگ جائے تو پھر ہم آسمانوں میں چلیں
یہ تھام لیتا ہے امکانِ فتحِ نو کے قدم
شکست سے بھی برا ہے شکست کا احساس
غرض ہے لطف سفر سے ہمارے قدموں کو
نہ فکر جادہ و منزل نہ سمت کا احساس
اک ذرا جب ہم اٹھا کر سر چلے
ہرطرف سے دیر تک پتھر چلے
تھا انتظام میری تباہی کا ورنہ اب
ٹھہری ہوئی ہے گردش آفاق کس قدر
مسلم سلیم کے یہاں عہد حاضر کا ناقدانہ مشاہدہ، جگہ جگہ ہجو ملیح کا سلوک، وسعت خیال ، خوابناک شعور و لا شعور کی گیرائی، رواں زبان کا استعمال اور سب سے بڑھ کر حسن و لطافت کا برتاؤ ’’آمد آمد ‘‘ کو حقیقت خیز اور جاذب نظر بناتا ہے۔مجموعی طور پر شاعر کا عصری رجحان کلاسیکی قوس اختیار کرتا ہے۔غالباً یہ بنیادی اردو کے گہرے نقش کا نتیجہ ہے۔ شاعر نے میڈیا سے وابستہ ہونے کے باوجود اس کے اثر سے اپنا دامن بچایا ہے۔
اور اب بات زیرِ نظر مجموعے کی۔ آمد آمد کی اشاعت ۲۰۱۰ میں ہوئی تھی جس میں مسلمؔ سلیم کا ۳۰ ؍ برسوں کا کلام شامل تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ ان کی آمد کی رفتار اتنی بڑھ گئی ہے کہ تب سے اب تک صرف ۳؍ برسوں میں انھوں نے اس سے زیادہ کلام کہہ کر دوسرے مجموعے کی تیاری شروع کر دی ہے۔
’’باز آمد ‘‘ تک آتے آتے مسلم ؔ سلیم نہ صرف زود گو ہوگئے ہیں بلکہ ان کی شاعری کا کینوس بھی وسیع تر ہو گیا ہے۔ مشاہدے میں مزید عمق پیدا ہوا ہے اور تخیل کی پرواز اور بھی بلند ہو گئی ہے۔
’’باز آمد ‘‘ کے مسلمؔ سلیم کا کینوس اب اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ شاید کوئی موضوع اور مضمون ان سے اچھوتا نہیں رہ گیا ہے۔ ساتھ ہی الفاظ کی نشست و برخواست اور کاٹ بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ وہ بے حد مشکل ردیفوں میں بہت آسانی سے انتہائی موثر اور رواں اشعار کہہ رہے ہیں ؂ ۔
سروں کی گنتی نے آخر کیا اسے رسوا
امیرِ شہر پہ بھاری پڑے غریب کے لوگ
جہاں میں دھوم ہے جنکی ژرف نگاہی کی
دکھائی کیوں نہیں دیتے انہیں قریب کے لوگ
اس لئے جیت کر ہر اک میداں بڑھ گئے رزمگاہ سے آگے
ہم نے اپنی نگاہ رکھی تھی دشمنوں کی نگاہ سے آگے
پہلے تھا ملک میں بس اک ظالم سب جسے بادشاہ کہتے تھے
اب تو اپنے ہیں سینکڑوں آقا ظلم میں عالی جاہ سے آگے
دل جہاں لاکھوں پڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
ہم بھی اس رہ میں کھڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
آپ کی مانند چلتے تھے اکڑ کر جو کبھی
خاک میں وہ سب گڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
ردیف اطلاعاً عرض ہے تو میں میں نے غزل میں پہلی مرتبہ دیکھی ہے ۔یہی نہیں ردیف کو بے حد چابکدستی سے برتا گیا ہے۔
یہ شعر بھی قابلِ توجہ ہے
عشقِ غالبؔ نے کیا جسکا ہے اقبالؔ بلند ۔۔۔میرِؔ ہر نطق زباں کیا ہے؟کہونا اردو
ایک ہی شعر میں اردو کی تین بڑی ہستیوں کا اعتراف اسے سے زیادہ خوبصورت انداز میں نہیں کیا جا سکتا اور اس طرح کہ اردو کی عظمت بھی کما حقہُ بیان ہو رہی ہے۔
’’باز آمد‘‘ میں مسلمؔ سلیم نے متعدد قطعات بھی شامل کئے ہیں جو ’’آمد۔آمد‘‘ میں شاذونادر ہی دکھے تھے۔ زیادہ تر قطعار رومانی ہیں اور یہ بھی ان کے لئے ایک نئی چیز ہے۔لیکن ان میں مسلمؔ سلیم نے اپنی بھرپور چھاپ چھوڑی ہے۔ ’’عاشق کی عید‘‘ کے عنوان سے یہ قطع ملاحظہ کریں۔
تم اک کرن ہو جو شمیں جلائے رہتی ہے
تم اک خوشی ہوجو دل میں سمائے رہتی ہے
خبر یہ تمخوب ہے مسلمؔ کہ دشمنِ جاں ہو
یہ جاں تمہیں سے مگر لو لگائے رہتی ہے
ایک اور اچھا قطع دیکھیں
پہلے تو اس حسیں کے خیالوں میں گم رہا
پھر اس کے بعد سب کے سوالوں میں گم رہا
تشبیہ کس سے دوں اسے کیسے بیاں کروں
بے مثل دلربا کی مثالوں میں گم رہا
قطعات کے ذریعے مسلم سلیم نے سماجی اور سیاسی برائیوں پر بھی بھرپور وار کئے ہیں۔ قطعہ بہ عنوان ’’نام نہاد دھارمک رہنما‘‘ کے یہ تیور دیکھیں:۔
موّدبانہ طریقے سے بولتے بھی رہے
مگر نظر سے بدن کو ٹٹولتے بھی رہے
نظیرِ فقروقناعت بنے رہے لیکن
بٹن ہوس کے لبادے کے کھولتے بھی رہے
؂’’آمد۔آمد‘‘ میں مسلم سلیم نے صرف ایک دو غزلہ شامل کیا تھا لیکن ’’باز آمد ‘‘ میں دو غزلوں کے علاوہ سہ غزلہ اور شش غزلہ بھی شامل ہیں جو انکی شعری توانائی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مسلمؔ سلیم کا شعری کارواں کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ امید ہے کہ یہ مجموعہ منظرِ عام پر آکر انھیں اردو کے نامور شاعروں کی صف میں کھڑا کردے گا۔
مہدی جعفر
، ۷۲۹، دریاآبا
د ، الہٰ آباد







مسلم سلیم ۔ احتجاج کی ایک توانا آواز

ادب کے افق پر خصوصاً شاعری کے ذریعہ اپنی شناخت بنانا آسان نہیں ہے۔ یہ وہ رہ گزر ہے جس پر جانے کتنے ہی مسافر برسہا برس چلتے رہے لیکن اپنی شناخت بنانا تو کجا اپنا نام بھی قارئین کے ذہنوں میں محفوظ نہ کراسکے۔ در اصل اس رہ گزر پر ہئی مسافر کامیاب و کامران ٹھہرتا ہے جو عام روش سے ہٹ کر قدم اٹھاتا ہے۔ جس کے سینے میں درمند دل ہوتا ہے اور جسکا دماغ بیدار ہوتا ہے۔ جسکی آنکھیں روشن ہوتی ہیں اور جو زمین پر رہ کر بھی آفاق کے اسرار جانتا ہو وہ اپنا راستہ اور اپنی منزل خود ہی طے کرتا ہے۔وہ نہ تو کسی کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے اور نا ہی فرسودہ مضامین میں الجھتا ہے۔ جس کی شاعری میں تہہ داری ہوتی ہے اور جس کے لہجے میں ایک عجیب کشش اور تازگی ہوتی ہے۔ ایسے ہی باکمال شعراء کی فہرست میں میں مسلم سلیم کا شمار کرتا ہوں ۔ان کی شاعری وقت کی آواز ہے اور عصر کا آئینہ بھی۔ وہ جوش میں بھی ہوش نہیں کھوتے اور جذبات کے دھارے میں نہیں بہتے بلکہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں بہت سوج سمجھ کر، سنبھل کر اور نہایت بے باکی سے کہتے ہیں۔ان کی شاعری کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ خفتہ ذہنوں کو بیدار کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور نہایت آسانی سے اپن مافی الضمیر ادا کر جاتے ہیں۔
مسلم سلیم کی شاعری نامساعد حالات کا مرثیہ نہیں بلکہ احتجاج کی ایک ایسی مضبوط آواز ہے جو سیاسی، معاشرتی ، تہذیبی، اخلاقی ایوانوں کو جھنجھوڑنے کا ہنر بھی خوب جانتی ہے۔ مثلاً
زندگی کی طرح بکھر جائیں
کیوں ہم ایسے جئیں کہ مر جائیں
کون ہے اس شہر میں مجھ سے زیادہ باخبر
مجھ کو سارے بے وفاؤں کے پتے معلوم ہیں
وہ راہیں جن سے ابھی تک نہیں گذر میرا
لگا ہوا ہے انہیں راستوں کو ڈر میرا
ْترے خلوص کا منکر نہیں ہوں میں لیکن
ذرا ٹھہر ، یہ تری آّستین میں کیا ہے
مندرجہ بالا اشعار کی قراء ت ایک ایسے باشعور بے باک شاعر کا تعارف کرواتی ہے جو نہ صرف اپنی دسترس میں لوح و قلم کا اسرار رکھتا ہے بلکہ کھل کر کہنے کا دم بھی رکھتا ہے۔ وہ نہ تو بکھرنے سے خوف زدہ ہے اور نا ہی آستین میں خنجر چھپانے کر رکھنے والوں سے غافل ہے۔ وہ آگہی اور ادراک کا دامن تھامے ہوئے ہے اور زندگی کو زندگی کی طرح جینے کی تلقین کرنے والا شاعر ہے۔ وہ حالاتِ حاضرہ کا نباض ہے اور اپنی سو سالہ تاریخ کا نقیب بھی اور آج جن حالات سے اس قوم گزر رہی ہے اس کا نوحہ گر نہیں بلکہ نقیب ہے۔ وہ اعتراف کرتا ہے :۔
دیو قامت وہ شجر جب تیز آندھی میں گرا
پستہ قد جتنے تھے پودے سب قدآور ہو گئے
لیکن وہ مایوس نہیں ہے۔ وہ نہایت اعتماد لہجے میں اعلان کرتے ہے :۔
باطن کی ذرا آنکھ جو روشن ہو تو پھر ہم
دیکھیں گے وہ چیزیں جو منظر میں نہیں ہیں
وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے
حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑیں تمام
مسلم سلیم کا لہجہ اگرچہ باغیانہ ہے لیکن غنائیت سے بھرپور ہے۔وہ لفظوں کے استعمال کا سلیقہ اور ہنر دونوں جانتا ہے۔ وہ اپنے اشعار میں لفظوں کو موتیوں کی طرح پروتا ہے۔روانی ایسی ہے کہ گویا دریا بہہ رہا ہے۔ خیال آفرینی و معاملہ بندی ان کے اشعار میں اس طرحّ آتی ہے کہ دل ودماغ میں بہت دیر تک اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ مسلم سلیم کی شاعری ایک سچے اور حساس انسان کی شاعری ہے۔ان کے کچھ اور خوبصورت اشعار ملاحظہ فرمایئے:
خاموشی سے ہر راز نہاں کھول رہا ہے
وہ صرف تبسم کی زبان بول رہا ہے
روح کے کرب کا کچھ مداوا نہ تھا
ڈاکٹر نیند کی گولیاں لکھ گیا
بچوں کو ہونے دیجئے احساس دھوپ کا
نشو نما نہ روکئے ، سایہ نہ کیجئے
ہر بار یوں لگا کہ کوئی آ ئے گا مگر
کچھ دور ہی سے لوٹ گئیں آہٹیں تمام
مجھ سے زیادہ وہ میری پہچان سے ملا
جو آیا میرے گھر میرے سامان سے ملا
مسلم سلیم شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ یہ ایک ایسا پیشہ ہے جس کے اثرات بہت جلد ادب کے معیار اور مزاج کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ موسمی اور وقتی موضوعات بڑی شاعری کے امکانات کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ لیکن صد شکر ہے کہ مسلم سلیم اسی صحافت میں رہتے ہوئے اپنے فن کو بچا لائے۔
ان کے پاس سستی جذباتیات کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ موضوع کو برتتے ہیں اور خارجیت کو اس انداز سے داخلیت کا حصہ بناتے ہیں کہ جگ بیتی، آپ بیتی میں ڈھل جاتی ہے اور اجتماعی غم، غمِ ذات میں تبدیل ہو جاتا ہے:۔
جب ہم نے زندگی کی گنیں راحتیں تمام
لمحات میں سمٹ سی گئیں مدّتیں تمام
ْاب کچھ بھی فرقِ مغرب و مشرق نہیں رہا
زہریلی ہو چکی ہیں جہاں کی ہوائیں سب
بھٹک رہا ہوں ابھی زندگی کی صحرا میں
خبر نہیں کہ کہاں ختم ہو سفر میرا

مندرجہ بالا اشعار مسلمؔ سلیم کے اولین مجموعے ’’آمد۔آمد‘‘ سے تھے تاکہ نیا قاری ان کی شعری نہج سے واقف ہو سکے اور نئے مجموعے تک ان کے ارتقائی سفر سے روشناس ہو سکے۔
زیرِ نظر مجموعے تک آتے آتے مسلم سلیم کے قلم میں مزید کاٹ آگئی ہے اور انھوں نے اردو غزل کا دامن وسیع تر کر دیا ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔
گِل خموش کا دیتا نہیں ہے ساتھ کوئی
ہیں سارے حاشہ بردار عندلیب کے لوگ
آج صندوق سے دیرینہ زمانے نکلے
ڈارئری کھولی تو یادوں کے خزانے نکلے
نا گاہ جاگ اٹھا وہ، یہ ہم پر عذاب تھا
ہم خواب بن رہے تھے وہ جب محوِ خواب تھا
محشر میں ہم نے دیکھا عجب ہی حساب تھا
ناکام جو یہاں تھا وہاں کامیاب تھا
پردا اٹھا کے دیکھا تو آنکھوں میں تھی حیا
یعنی کی اس حجاب کے اندر حجاب تھا
بہار لائے تھے یہ، انکا احترام کرو
خزاں رسیدہ درختوں کو بھی سلام کرو
کس قدر پانی ہے پہلے اس کا اندازہ کیا
بند پھر اپنی مدد کا اس نے دروازہ کیا

’’باز آمد ‘‘ کی نمایاں خصوصیت ہے کہ شاعر مسلم نوجوانوں کو تشدد کی راہ چھوڑ کر امن کی طرف بلا رہا ہے۔ یہاں تک کہ نعت کے شعر میں بھی اس کا اظہار کرتا ہے۔
جہادِ زندگی لازم ہے مسلمؔ جان لو لیکن
ملے گی کامیابی صرف آقاؐ کے طریقے سے
اسی موضوع پر ایک قطع بھی ملاحظہ ہو۔
ہر طرف یہ پیام دینا ہے
امن کا اذنِ عام دینا ہے
میرے نزدیک مقصدِ اسلام
رحمتوں کا نظام دینا ہے
مسلم سلیم کی شاعری ایک ایسا جزیرہ ہے جو سمندر میں اٹھنے والے طوفانوں کا مقابلہ کرنا بھی جانتا ہے اور اپنی بقاء کی جنگ بھی لڑ رہا ہے۔ یہ جزیرہ یقیناًآنے والے زمانے میں توجہات کا مرکز بنے گا اور مسلم سلیم کے فن کی داد بھی دے گا۔

نور الحسنین
اورنگ آباد، مہاراشٹرا، انڈیا










مسلمؔ سلیم : جدید لب و لہجہ خوشگوار ہوا کا جھونکا

شاعری انسانی جذبات کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے۔اچھا شعر ہی شاعر کا تعارف ہوتا ہے۔ آجکل جس برق رفتاری سے شاعری کے مجموعے شائع ہو رہے ہیں، ان میں اچھا مجموعہ یا اچھا شعر تلاش کرناجوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔سائنسی ترقی اور مشینی زندگی نے انسانی جذبات و احساسات اور رویوں کو ایسا مخبوط کر رکھا ہے کہ آج کا مادیت پرست انسان اعلیٰ روحانی، اخلاقی، سماجی اور تہذیبی رویوں کے عملی افادیت سے کوسوں دور چلا جا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں مسلم سلیم جیسے جدید لب و لہجے کے شاعر کا مجموعہ ’’آمد آمد‘‘ خوشگوار ہوا کا جھونکا محسوس ہوتا ہے۔ شاعر اپنے انداز و لہجہ اور مسحور کن کیفیتوں کے حوالے سے ایک معتبر حوالہ دکھائی دے رہا ہے۔مسلم سلیم نے جس علمی ، ادبی، مجلسی، تہذیبی اور معاشرتی ماحول میں عربی، فارسی، ہندی، انگریزی اور اردو زبان کے حوالے سے ایسی تربیت کا انداز پایا ہے وہ ان کی ابتدائی شاعری میں نظر آتا ہے:
کر دی میراث وارثوں کے سپرد
زندگی کس کے نام کر جائیں
ہمہ جہت مسلم سلیم بیک وقت عربی، فارسی، ہندی، انگریزی اور اردو زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ ایک طرف وہ ہندی، انگریزی اور اردو کے نامور صحافی ہیں تو دوسری طرف بہترین شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔وہ زمانی رویوں کو اپنے شعر کے سانچے میں کچھ اس انداز میں سموتے ہیں کہ ان کا شعر سماجی اور تہذیبی حوالہ بھی بن جاتا ہے۔ تجربہ اور مشاہدہ تخلیق کے عمل میں بنیادی حوالہ ہوتا ہے تب جاکر شعر میں خیال آفرینی ، تخیل اور دیگر شعری محاسن اور معانی و مفاہیم کھلتے ہیں جو قاری کے لئے نہ صرف ذوق مطالعہ کا باعث ہوتے ہیں بلکہ عصری مسائل کا غماز بن جاتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کون ہے اس شہر میں مجھ سے زیادہ باخبر
مجھ کو سارے بے وفاؤں کے پتے معلوم ہیں
وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے
حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑیں تمام
وہ زیست کے پیالے میں کہیں زہر نہ بھر دے
کانوں میں جو آواز کا رس گھول رہا ہے
خاموشی سے ہر رازِ نہاں کھول رہا ہے
وہ صرف تبسم کی زباں بول رہا ہے
مسلم سلیم کی شاعری میں مغربی شعر و سخن کے مطالعہ کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ الفاظ و تراکیب، روز مرہ اور محاورہ سے واقفیت، قافیہ اور ردیف کا بر محل استعمال، غزل میں شاعر کے اعلیٰ فنکار ہونے کی دلیل ہے۔ بعض شعراء ماورائی کیفیتوں اور آورد کے سہارے شعر و سخن کے میدان میں طبع آزمائی ضرور کرتے ہیں اور محدود وقت کے لئے وقتی تعریف کے مستحق قرار پاتے ہیں لیکن زیادہ عرصہ تک اپنا مقام قائم نہیں رکھ سکتے۔ مسلم سلیم کی شاعری اپنے عصری رچا ؤ کی بھر پور عکاس ہے۔ چند مزید اشعار ملاحظہ ہوں:
انسان کی کہانی ہے کہ دریا کی روانی
آغاز سمندر ہے اور انجام سمندر
کس دن بساط زیست پلٹ جائے کیا خبر
ہر مہرہ اپنے خانے میں نامطمئن سا ہے
باطن کی ذرا آنکھ جو روشن ہو تو پھر ہم
دیکھیں گے وہ چیزیں کہ جو منظر میں نہیں ہیں
مسلم سلیم جو ایک اعلیٰ علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور حتی الامقدور اپنے اسلاف کی روایت کی پاسداری بھی کر رہے ہیں۔ ان کا ذریعہ معاش صحافت ہے اسکے ساتھ علمی، فکری، تہذیبی اورادبی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھا ہوا ہے۔مسلم سلیم عقلی، روحانی اور نفسیاتی موشگافیوں کو بہتر اندازمیں سمجھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں آنے والے عہد کا حوالہ بھی موجود ہے اور موجودہ عہد کا نوحہ بھی۔ انداز بیان سلاست کی عمدہ مثال ہے۔ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ تخلیقی جوہر کی بھی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔ بہت کم ایسا دیکھا گیا ہے کہ دونوں سطحوں پر انسان اپنے آپ کو فعال رکھتے ہیں۔ تخلیقی عمل بذات خود ایک مکمل جہان ہے۔ مسلم سلیم نے صحافت، نثر اور شاعری میں اپنا لوہا منوا لیا ہے۔
تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گی
میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی
جیب کی گرمی سے کہتی ہے مری بے چہرگی
جسم کے بازار چہروں کی دکانوں میں چلیں
دوست یوں جلاتے ہیں ، ایسے خوں رلاتے ہیں
محفلیں سجاتے ہیں، ہم کو بھول جاتے ہیں
داستان خود کو کہلواتی رہے گی یونہی
ایک جائیگا ایک آئیگا سنانے والا
مسلم سلیم آورد کا شاعر نہیں اس کا شعری مواد اس کے ارد گرد کے ماحول اور مضبوط ہند و پاک کی شعری روایات سے مزین ہے۔ ان کی سخن فہمی میں ایک موروثی، جینیاتی اور نفسیاتی محرک عمل بھی کار فرما ہے۔مسلم سلیم کی شاعری میں ایک روحانی اور ثقافتی حوالہ بھی خال کال ملتا ہے۔ شاعر ماضی کی یادوں سے بھی اپناناطہ قائم رکھے ہوئے ہے۔بعض اوقات شہرت انسان کے تحقیقی عمل میں ایک رکاوٹ بن جاتی ہے۔لیکن مسلم سلیم ایسے نابغہ روزگار شاعر ہیں جو شہرت کو پسند نہیں کرتے بلکہ خاموش مسافر کی طرح منازل عشق طے کرنے کا ہنر و شعور رکھتے ہیں:
نیک نامی کا صلہ گوشۂ تنہائی ہے جس کو شہرت کی تمنا ہو رسوا ہو جائے
باطن کی ذرا آنکھ جو روشن ہو تو پھر ہم دیکھیں گے وہ چیزیں کہ جو منظر میں نہیں ہیں
مری فطرت میں رچ گیا ہے خلوص
اب مسلسل یہی گناہ سہی
مسلم سلیم اپنے عہد کے بڑے نباض ہیں اور عمیق سماجی اور عصری شعور ان کے مزاج، گفتگو اور تحریروں میں جھلکتا ہے۔ تخلیقی عمل میں سماجی اور معاشرتی رویوں کا مضبوط تاریخی اور ادبی پس منظر اشعار کی صورت میں قاری کے لئے تفہیم کے نئے در وا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ مسلم سلیم نے اپنے صحافیانہ تجربے اور مشاہدے کو شعر بنانے شعری حسن کا خاص خیال رکھا ہے۔ بعض اشعار تو زندگی کا مکمل خاکہ بنا دیتے ہیں اور قاری کے سامنے ایک تصویر پھر جاتی ہے۔ اس اجمالی تفصیل میں یہ بات عیاں ہے کہ مسلم سلیم جیسا ذی شعور شاعر آنے والے وقتوں کا معتبر حوالہ ہوگا جو ہم عصر زندگی سے قربت رکھتا ہے۔جدید تہذیب پر طنز، روایت پسندی، معاشرہ کی تہذیبی اور سماجی شکست و ریخت کا بیان انہیں اپنے ہم عصر شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔
راشد خلیل
لاہور، پاکستان











مسلم سلیم کی شعری شناخت

در حقیقت مسلم سلیم کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب آج سے تقریباً ۳۵ برس قبل وہ شہر الہ آباد میں میرے مکان سے نزدیک محلہ خلد آباد میں ایک فلیٹ میں ہ رہا کرتے تھے۔ وہ غالباً بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کا درمیانی زمانہ رہا ہوگا جب میرے اس دور کے مخلص دوست فضل حسنین (مزاح نگار) نے موصوف سے میرا تعارف کرایا تھا۔ کشمیری وضع قطع اور ناک نقشے کے گورے چٹے نوجوان سے جوں جوں ملاقاتوں کے سلسے دراز ہوئے، ان کی شخصیت میں پوشیدہ بعض اوصاف مجھ ہیچمداں پر آشکارا ہونے لگے۔ اس زمانے میں مسلم سلیم نے مجھے اپنی جس ادا سے خصوصیت سے متاثر کیا تھا وہ ان کی آواز کا جادو تھا۔ وہ اچھے خاصے گلوکار تھے۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ غزلوں کے علاوہ وہ ممتاز گلوکار محمد رفیع کا ایک گانا ’’ سہانی رات ڈھل چکی، نہ جانے تم کب آؤ گے‘‘ خاصے پر اثر انداز میں گا کر سناتے تھے۔ اور پھر رفتہ رفتہ مجھ پر ان کے ادبی اور شاعرانہ ذوق کے اسرار و رموز بھی بے نقاب ہونے لگے تھے۔تقریباً ۱۹۸۲ کے اوائل میں، میں الہ آباد کی سکونت ترک کرکے لکھنؤ میں مستقل طور پر قیام پزیر ہوگیا اور بعض دیرینہ احباب کی طرح موصوف سے بھی روز کی ملاقاتوں کے سلسلے بھی منقطع ہو چکے تھے۔
لکھنؤ میں میرے قیام کے دوران، مزاح نگار نے مجھے بتایا کہ مسلم سلیم الہ آباد سے بھوپال میں بودوباش اختیار کر چکے ہیں۔ ماہ و سال گزرتے رہے اور پھر مجھے مسلم سلیم کا کلام بعض رسائل میں نظر آیا۔ خصوصیت سے ۱۹۹۰ کے بعد سے بھوپال سے شائع ہونے والے اردو روز نامے ’’ ندیم‘‘ میں انکی بعض غزلیں نظر نواز ہوئیں۔ ندیم کا ہفتہ وار ضمیمہ میرے کرم فرما حبیب احمد صاحب کی عنایت سے مجھے گذشتہ کئی برسوں سے موصول ہو رہا ہے۔ مسلم کے اشعار میں شعریت نظر آئی۔
اس تفصیل کا اجمال یہ ہے کہ ۲۰۱۱ کے غالباً ماہِ جنوری کے اواخر کی کوئی تاریخ رہی ہوگی کہ اچانک میرے موبائل کی گھنٹی بجی ۔ دوسری جانب مسلم سلیم تھے۔ عرصہ دراز کے بعد ان کی آواز سماعتوں میں رس گھول رہی تھی۔ تھوڑے دن گذرے ہوں گے کہ موصوف نے اپنا مجموعہ کلام ’’ آمد آمد‘‘ ارسال فرمایا جسکی ورق گردانی کرتے ہوئے پہلی مرتبہ مجھ پر باقاعدہ ان کے بعض مخفی شعری محاسن آشکارا ہوئے۔ شدت سے یہ احساس ہوا کہ ان کے کلام میں عصری حسیت بھی ہے، تخیل کی بلاغت بھی ہے، فکری بلوغت بھی ہے نیز فنّی و تخلیقی ہنر مندی بھی ہے اور احساس اور جذبہ بھی اپنی جلوہ سامانیاں بکھیرتے نظر آرہے ہیں۔
’’آمد آمد‘‘ میں شامل اشعار جن میں غزلوں کے علاوہ حمد، نعت اور منقبت کی اصناف میں مدحیہ اشعار بھی شامل ہیں، در اصل زندگی کی گوناگوں حقیقتوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ایک خصوصیت اور۔۔مسلم سلیم نہ تو پیشہ ور مشاعروں کے شاعر ہیں اورنہ شعراء کے اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جو بے تحاشہ شعر کہتے ہیں محض تفننِ طبع کے لئے! اس سلسلے میں وہ خود رقم طراز ہیں:
’’نہیں کہتا تو مہینوں برسوں نہیں کہتا اور جب آمد کا ہجوم ہوتا ہے تو گھر ہو یا دفتر، سفر ہو یا حضر، اشعار کا ورود ہوتا ہے۔۔۔۔ کبھی کبھی برسوں کے بعد دس پندرہ دن آتے ہیں جب لگتا ہے کہ ذہن میں آمد کا کوئی بٹن دب گیا ہو۔ ان دنوں مجھ پر وجد کی سی کیفیت طاری رہتی ہے اور میں جھوم جھوم کر ان نو آوردگان کا استقبال کرتا ہوں۔ جب مجھ جیسے کم علم پر یہ اشعار گہرا تائثر چھوڑتے ہیں، تو میں مطمئن ہو جاتا ہوں کہ اہل ذوق حضرات انہیں یقیناًپسند کریں گے‘‘
( ماخوذ از’’ آمد آمد‘‘، ص ۵)
متذکرہ بالا سطور کا جائزہ لینے پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ان کی شاعری کی سطح بلند ہے۔ یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ان کی شاعری کا خمیر زندگی اور اس کی مظاہر کی آمیزش سے تیار ہوا ہے۔ اس وجہ سے ان کے اشعار میں فکر و خیال کی متنوع جہتیں پرت در پرت کھلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ دراصل وہ خیالی دنیا کے شاعر نہیں ہیں بلکہ بیداری اور باخبری کے شاعر ہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار اس حقیقت کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں:
سر درختوں کے کس نے قلم کر دئے۔۔۔شہر میں دور تک بستیاں لکھ گیا
زندگی کی طرح بکھر جائیں
کیوں ہم ایسے جئیں کہ مر جائیں
نیند ٹوٹے نہ خضر ہی کی نہ رہبر جاگے
مجھ میں سویا ہوا انساں جو گھڑی جاگے
پرسکوں دن ہے کوئی شور نہیں چیخ نہیں
رات ہولے تو گناہوں کا سمندر جاگے
گنوا کے ذات کو لایا ہوں زندگی کی خبر۔۔۔مری سنو کہ حوالہ ہے معتبر میرا
شعلوں میں گھرے سب ہیں شراروں میں کھڑے ہیں
اوروں کی طرح ہم بھی حصاروں میں کھڑے ہیں
اک ذرا جب ہم اٹھا کے سر چلے ۔۔۔ہر طرف سے دیر تک پتھر چلے
وقت نے کیسی کروٹ لی ہے سروالے سنگسار ہو گئے
سر ہی نہیں تھا شانوں پہ جن کے پھر وہ سب کے سردار ہو گئے
متذکرہ بالا مثالیں مسلم ؔ کی متنوع و مستند شاعرانہ شناخت کے لئے کافی ہیں۔درحقیقت ان کے سرماےۂ سخن کا ایک حصہ فکری بلوغت، گہری دردمندی، عمیق مشاہد ہ، فنی رچاؤ کے ساتھ ہی زندگی کی انفرادی و اجتماعی حقیقتوں اور بصیرتوں کا ترجمان ہے۔ مختصر یہ کہ مسلمؔ کی شاعری محض ان کی ذات کا نہیں بلکہ گردو پیش کی تلخ و شیریں حقیقتوں کا شاعری اظہار ہے اور انکشاف بھی۔
ڈاکٹر جعفر عسکری
239, MUMTAZ MAHAL COMPOUND, GOLAGANJ, LUCKNOW-18





مسلمؔ سلیم۔کیا بودوباش پوچھو ہو
اصل نام اور تخلص مسلم سلیم ہے۔
والدین
والدمحترم ڈاکٹر سلیم واحد سلیمؔ اپنے وقت کے خوش گو شاعر تھے اور نقوش، ادبِ لطیف و دیگر معتبر جرائد میں۱۹۴۲ سے ۱۹۷۰ تک بکثرت اور باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔ ابھی چند برس پہلے لاہور یونی ورسٹی میں ان پر تحقیق بھی ہوئی۔ آپ مشہور اردو نقاّد اور ماہر اقبالیات و غالب خلیفہ عبدالحکیم کے بھتیجے تھے۔ علی گڑھ طبّیہ کالج کے تاسیسی پرنسپل عطاء اﷲ بٹ والدصاحب کے پھوپھا تھے۔
والدہ محترمہ امِّ حبیبہ صاحبہ سیّد عبدالباقی صاحب کی پوتی تھیں جو محمدن انگلو اورئینٹل کالج (اب علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی) کے پہلے پانچ طلبہ مین شامل تھے اور فارغ التحصیل ہو کر وہیں برسر ( bursar) کے عہدے پر تا عمر فائز رہے۔
پیدائش و تعلیم
ضلع ہردوئی کے قصبہ شاہ آباد میں تولد ہوا۔ نومبر کی پہلی تاریخ تھی اور سن تھا ۱۹۵۰۔ لیکن بچپن سے لیکر بی اے آنرز کی تعلیم تک کا عرصہ علی گڑھ ہی میں گزرا۔ پانچویں تک تعلیم علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سٹی برانچ اسکول، دسویں تک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سٹی ہائی اسکول اور پھرعلی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہی سے بی آنرز (سیاسیات) کرنے کے بعد الہٰ آباد یونی ورسٹی سے ایم اے (عربی) پاس کیا۔
کیرئر
۱۹۷۹ میں بھاسکر گروپ آف نیوز پیپرز کے اردو اخبار آفتاب جدیدبھوپال سے کیرئر کا آغاز کیا۔ ۱۹۸۶ میں اسی گروپ کے انگریزی اخبار نیشنل میل سے منسلک ہوا۔ ۲۰۰۰ء میں بھاسکر ہندی میں نیوز کوآرڈینیٹر بنا۔ ۲۰۰۳ء میں انگریزی اخبار نیوز ایکسپریس میں چیف سب ایڈیٹر کا عہدہ سنبھالا۔۲۰۰۴ سے۲۰۰۸ تک انگریزی اخبار سینٹرل کرونیکل میں بیورو چیف رہا اور فی زمانہ ہندوستان ٹائمس میں مصروفِ کار ہوں۔ اس طرح میں نے کثیر لسانی صحافی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
پہلی تخلیق
پہلی تخلیق ایک غزل تھی۔ یہ غزل میں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی آرٹس فیکلٹی ہال میں منعقدہ ایک مشاعرے میں ۱۹۷۱ ء میں پڑھی جس پر خلیل الرّحمٰن اعظمی و دیگر سامعین نے بے ساختہ اور بھرپور داد دی تھی۔اگست ۲۰۱۰ ء میں آخری بار جب میں علی گڑھ گیا تھا تو دیرینہ احباب نے مجھے دیکھتے ہی یہ اشعار مجھے سنائے۔ ان میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی بھی شامل ہیں۔ غزل کچھ اس طرح تھی ۔
ہر خواہش کب کس کی پوری ہوتی ہے ..... ہوتی ہے پر تھوڑی تھوڑی ہوتی ہے
ان کے میل کو ان کے گھر جاکر دیکھو۔۔۔ باہر جن کی چادر اجلی ہوتی ہے
میں بازار سے کافی پردے لایا ہوں ۔۔۔اب دیکھوں کیسے رسوائی ہوتی ہے
آخر الذکر شعر حاصلِ مشاعرہ ثابت ہوا۔ پہلی غزل ماہنامہ شاعر، بمبئی کے جون۔جولائی ۱۹۷۹ء کے شمارے میں شائع ہوئی جسکے دو اشعار پیش ہیں ؂
جب ہم نے زندگی کی گنیں راحتیں تمام
لمحات میں سمٹ سی گئیں مدّتیں تمام
وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے
حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑیں تمام
پہلا افسانہ
۱۹۷۱ ء میں پہلا افسانہ ’ننگی سڑک پر‘ قلمبند کیا۔ اسی سال اس افسانے کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شارٹ اسٹوری کمپٹیشن میں انعام سے نوازا گیا۔ انعامات کی تقسیم عصمت چغتائی کے دستِ مبارک سے عمل میں آئی تھی۔بعد میں یہی افسانہ ’روشن‘ (بدایوں) کے جولائی۔اگست ۱۹۷۱ء کے شمارہ میں شائع ہوا۔
تصنیفات و تالیفات
میرا مجموعہ کلام ’’آمد آمد‘‘ مدھیہ پردیش اردو اکادیمی نے نومبر ۲۰۱۰ کو شائع کیا ہے۔ تخلیقات ہندوپاک کے رسائل میں شائع ہو چکی ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی پڑھا ہے۔آل انڈیا ریڈیو کی اردو مجلس نے میرا افسانہ ’سُکھ کی نیند‘ ۱۴ جولائی ۱۹۷۹ ء کو ’کرن‘ پروگرام کے تحت نشر کیا۔ میری تخلیقات مندرجہ ذیل رسائل اور اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔
۱۔ شاعر (بمبئی)، ۲۔ نیا دور (لکھنؤ)،۳۔ ہماری زبان (دہلی)،۴۔ روشن (بدایوں)،۵۔ روشی (میرٹھ)، ۶۔آفتاب جدید (بھوپال)، ۷۔ ایاز (بھوپال)، ۸۔ کاوش جدید (کانپور)، ۹۔اندازے (الہٰ آباد)، ۱۰۔ اردو ایکشن(بھوپال)، ۱۱۔ندیم، ۱۲۔عصری ادب (دہلی)، ۱۳۔ شگوفہ (حیدرآباد)، ۱۴۔ مادری زبان (الٰہ آباد)، ۱۵۔ آغاز (کراچی)، ۶۱ آہنگ (گیا)۔
بی بی سی پر انٹرویو
یکم مارچ ۱۹۸۲ء کو جناب رضا علی عابدی لندن سے ؛بھوپال تشریف لائے۔ یہاں سیفیہ کالج میں انھوں نے میرے علاوہ پروفیسر عبدالقوی دسنوی، پروفیسر حامد جعفری، مرتضیٰ علی شاد ، محمد نعمان خاں اور جناب خالد عابدی کے انٹر ویو لئے جو بعد میں بی بی سی کی اردو سروس سے نشر کئے گئے۔
مجلّہِ بھوپال
محترم افتخار جلیل شوقؔ بھوپال سے پاکستان جا بسے ہیں۔ ۹۴ء میں بھوپال تشریف لائے اور یہاں کے تمام مشہور شعراء، ادباء اور نامور ہستیوں کی تخلیقات و تصاویر پر مبنی یہ مجلّہ کراچی سے شائع کیا۔ اس میں میری دو تصاویر کے ساتھ ساتھ صفحات ۱۵۰ اور ۱۵۱ پر غزلیں، صفحات ۱۷۵۔۱۷۴۔۱۷۳ پر تعارف اور صفحہ ۱۸۷ پر یادِباسط طرحی مشاعرے میں اوّل انعام کا مستحق قرار پانے والی غزل سے متعلق اخبار کا تراشہ بھی شائع کیا۔
عربی زبان وادب کا کل ہند سیمینار
مارچ ۱۹۸۲ء کو سیفیہ کالج میں عربی زبان و ادب کا کل ہند سیمینار منعقد ہوا جس کا میں کنوینر تھا۔ اس سیمینار میں احمد سعید ندوی، پرنسپل شکور خاں، پروفیسر عبدالحلیم ندوی (حیدرآباد)، ڈاکٹرامجد علی (علی گڑھ) اور پرفیسر محمد عقیل (بھوپال ) نے شرکت فرمائی۔
اٹل بہاری واجپئی اور قتیلؔ شفائی
۱۹۸۳ء میں ہفتہ وار ’ایاز‘ کے دس برس مکمل ہونے پر ایک ہندوپاک مشاعرے کاانعقاد اقبال میدان پر کیا گیا۔ اس مشاعرے میں جنا ب اٹل بہاری واجپئی اور قتیلؔ شفائی کے ساتھ میں نے بھی کلام پڑھا۔ بعد میں عصرانہ پر واجپئی صاحب میرے بالکل سامنے والی کرسی پر اور قتیل شفائی ساتھ والی کرسی پر تشریف فرما تھے۔ قتیلؔ شفائی صاحب کو جب یہ پتہ چلا کہ میں ان کے دوست ڈاکٹر سلیم واحد سلیمؔ کافرزند ہوں توبھوپال کے قیام کے دوران انھوں نے مجھے ساتھ ساتھ رکھا اور بہت شفقت سے پیش آئے۔
ایاز ڈائری
۱۹۸۳ء ہی میں ایاز ڈائری کا اجراء عمل میں آیا جسکی ترتیب اور اشاعت میں میرا اہم کردار رہا۔ اس ڈائری کے ہر صفحہ پر اردو اور ہندی کے کسی نہ کسی مشہور شاعر کاشعر درج ہے۔ میرے اشعار بھی ہیں۔ اردو اشعار کا ہندی ٹرانس لٹریشن میں نے ہی کیا تھا۔
اختر سیعد خاں سے ٹی وی انٹرویو
مجھے بھوپال دور درشن کے اردو پروگرام میں شانِ بھوپال اختر سعید خاں صاحب سے انٹردیو لینے کا بھی شرف حاصل ہوا۔
مجروح سلطان پوری سے انٹرویو
مجروح سلطان پوری کے قیام بھوپال کے دوران تفصیلی گفتگو ہوئی جسے انٹرویو کی شکل میں روزنامہ آفتاب جدید میں شائع کیا۔انٹرویو پر اخبار میں کئی دنوں بحث چلی جو میرے ہی مضمون کے ساتھ اختتام پر پہنچی۔
یادِ باسطؔ طرحی مشاعرے میں اوّل
یادِ باسطؔ طرحی مشاعرے کا انعقاد ۱۹۸۲ میں آچاریہ نریندر دیو ہال بھوپال میں کیا گیا تھا جس میں اس وقت کے سبھی نامور شعراء نے شرکت کی تھی۔اس میں ایک ۵ اشعار کی غزل میں نے بھی پڑھی تھی۔ اس وقت تک میری شعری صلاحیت سے کم ہی لوگ واقف تھے۔ بہر حال جب میں نے یہ شعر پڑھا ؂
کر دی میراث وارثوں کے سپرد
زندگی کس کے نام کر جائیں
تو سارا ہال نعرہ ہائے تحسین سے گونج اٹھا۔ اختر سعید خاں صاحب کی آواز سب سے بلند رہی۔یہی نہیں بلکہ ہر مرتبہ داد دینے پر وہ اپنی جگہ سے آگے کھسکتے جاتے تھے۔ اب جب کسی شعر پر اختر سعید خاں جیسی قد آور شخصیت جھوم جائے تو اس تخلیق کو اوّل تو ٹھہرنا ہی تھا، اور ہوا بھی یہی۔
اردو لکھنا خود سیکھئے
میں نے یہ کالم آفتاب جدید میں شروع کیا تھا جسکی کتابت بھی میں خود ہی کرتا تھا۔ یہ کافی افادی ثابت ہوا۔ بعد میں کچھ حضرات نے اسی طریقے کی بنیاد پر کتابیں بھی لکھ ڈالیں اور نام اور پیسہ کمایا۔
اعزاز
۱۹۷۱ میں افسانہ ’ننگی سڑک پر‘ پر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں انعام و اعزاز۔
۱۹۸۳ ء میں یاد باسط طرحی مشاعرے میں اوّل انعام اور اعزاز۔
جشنِ مسلم سلیم
مسلم سلیم کی خدمات کے اعتراف میں اردو یوتھ فورم بھوپال کی جانب سے عظیم الشان جلسہ بنام جشنِ مسلم سلیم اردو اکادیمی بھوپال میں اتوار ۳۰ دسمبر ۲۰۱۲ کو منعقد ہوا۔ جشن کی صدارت مشہور شاعر جناب احمد علی برقی اعظمی، دہلی نے فرمائی جبکہ پروفیسر آفاق احمدمہمانِ خصوصی تھے۔ اس موقعہ پر مدھیہ پردیش ار دو اکادیمی کے صدر جناب سلیم قریشی پر بھی ڈائس پر موجود تھے۔ جشن میں بزرگ اور محترم شاعروں اور نقادوں ڈاکٹر قاسم نیازی اورجناب ظفر نسیمی نے مسلم سلیم کی حیات و فن پر سیر حاصل مقالات پڑھے ۔ اپنے مقالے میں ڈاکٹر قاسم نیازی نے مسلم سلیم کو اردو کے بڑے شاعروں میں شمار کیا۔ قابلِ احترام شاعر اور نقاد جناب ظفر نسیمی نے مسلم سلیم کے متعدد اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے انھیں عصرِ حاضر کا ایک بے حد منفرد اور نایاب شاعر قرار دیا۔ جناب ظفر نسیمی نے کہا کہ مسلم سلیم کے شعری مجموعہ ’آمد آمد‘ کے زیادہ تر اشعار اردو شاعری میں اضافہ ہیں۔ مسلم سلیم کا کمال یہ ہے یہ وہ صرف دو مصرعوں میں گویا ایک داستان بیان کردیتے ہیں۔ پروفیسر آفاق احمد نے بھی مسلم سلیم کو دور حاضر کا ایک منفرد اور صاحبِ طرز شاعر قرار دیا۔ ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے کہا کہ مسلم سلیم ایک اعلی شاعر اور ادیب ہی نہیں ، ایک عظیم خادمِ اردو بھی ہیں جنھوں نے اپنی ویب سایٹس کے ذریعے متعدد شاعروں اور ادیبوں کو گوشہِٗ گمنامی سے نکال کر شہرت کی راہ پر گامزن کیا ہے جنمیں وہ خود بھی شامل ہیں۔
رسالہ ادبی کرن کا مسلم سلم نمبر
بھوپال کے رسالے ادبی کرن نے مسلم سلیم کی زندگی اور فن پر خصوصی شمارہ ۲۰۱۱ ء شایع کیا۔ اسکا اجراء مدھیہ پردیش کے وزیرِثقافت جناب لکشمی کانت شرما نے کیا۔ پروفیسر آفاق احمد، رسالہ کے مدیر جناب یونس مخمور، کھوج خبر نیوز ڈاٹ کام کے مدیر عطاء اﷲ فیضان و دیگر حضرات اس موقع پر موجود تھے۔
ویب سائٹس
میں نے جنوری ۲۰۱۰ میں ویب سائٹ کھوج خبر نیوز ڈاٹ کام (khojkhabarnews.com) کا آغاز کیا۔ جس میں اردو سے متعلق چار دائریکٹریز ہیں۔ : 1. Urdu poets and writers of Madhya Pradesh, 2. Urdu poets and writers of India 3. Urdu poets and writers of world 4. Drama world of India
ان ڈائریکٹریز میں اردو شعرا و ادبا کا با تصویر تعارف اردو اور انگریزی میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ اردو دینا میں ایک نادر کارنامہ ہے۔
اس کے بعد میں نے مندرجہ ذیل بلاگس بھی شروع کئے ہیں۔
1. Urdu poets and writers of India
http://muslimsaleem.wordpress.com/category/urdu-poets-and-writers-of-india/
2. Urdu poets and writers of World
http://muslimsaleem.wordpress.com/category/urdu-poets-and-writers-of-world/
3. Urdu poets and writers of Madhya Pradesh
http://muslimsaleem.wordpress.com/category/urdu-poets-and-writers-of-madhya-pradesh/
4. Urdu poets and writers of Pakistan
http://muslimsaleem.wordpress.com/category/urdu-poets-and-writers-of-pakistan/
5. Urdu poets and writers of Allahabad
http://muslimsaleem.wordpress.com/category/uncategorized/urdu-poets-and-writers-of-allahabad/
6. Urdu poets and writers of Agra
http://urdunewsblog.wordpress.com/category/urdu-poets-and-writers-of-agra/
7. Urdu poets and writers of Shahjahanpur
http://muslimsaleem.wordpress.com/category/urdu-poets-and-writers-of-shahjahanpur/
8. Urdu poets and writers of Uttar Pradesh
http://khojkhabarnews.wordpress.com/urdu-poets-and-writers-of-uttar-pradesh/
9. Urdu poets and writers of Canada
http://muslimsaleem.wordpress.com/category/urdu-poets-and-writers-of-canada/
10. Urdu poets and writers of Jammu-Kashmir
http://muslimsaleem.wordpress.com/category/urdu-poets-and-writers-of-jammu-kashmir-and-kashmiri-origin/
11. Urdu poets and writers of Gujarat
http://urdunewsblog.wordpress.com/urdu-poets-and-writers-of-gujarat-india-by-muslim-saleem/
12. Urdu poets and writers of Hyderabad
http://urdunewsblog.wordpress.com/category/urdu-poets-and-writers-of-hyderabad/
13. Urdu poets and writers of Karnataka
http://urdunewsblog.wordpress.com/category/urdu-poets-and-writers-of-karnataka/
14. Urdu poets and writers of Maharasthra
http://urdunewsblog.wordpress.com/category/urdu-poets-and-writers-of-maharashtra/
15. Urdu poets and writers of Rajasthan
http://urdunewsblog.wordpress.com/category/urdu-poets-and-writers-of-rajasthan/
16. Urdu poets and writers of Tamil Nadu
http://urdunewsblog.wordpress.com/category/urdu-poets-and-writers-of-tamil-nadu/
17. Urdu poets and writers of Aurangabad
http://poetswritersofurdu.blogspot.in/p/urdu-poets-and-writers-of-aurangabad.html
18. Urdu poets and writers of West Bengal
http://poetswritersofurdu.blogspot.in/p/urdu-poets-and-writers-of-west-bengal.html
19. Urdu poets and writers of India Part-1I
http://poetswritersofurdu.blogspot.in/p/urdu-poets-and-writers-of-india-part-ii.html
20. Urdu poets and writers of World Part II
http://poetswritersofurdu.blogspot.in/p/urdu-poets-and-writers-of-world-part-ii.html
21. Female Urdu Poets and Writers
http://muslimsaleem.blogspot.in/p/female-urdu-poets-and-writers.html
22. Hindu Naatgo Shuara
http://cimirror.blogspot.in/p/hindu-naat-go-shuara-hindu-poets-of.html
23/ Urdu poets and wrirters of Pakistan
http://muslimsaleem.wordpress.com/2013/07/19/urdu-poets-and-writers-of-pakistan/
24. Urdu Poets and writers of Bihar
http://urdunewsblog.wordpress.com/category/urdu-poets-and-writers-of-bihar/
ان بلاگس میں مندرجہ ذیل اردو ڈائریکٹریز شامل کی گئی ہیں۔
www.muslimsaleem.wordpress.com
www.urdunewsblog.wordpress.com
www.muslimsaleem.blogspot.in
www.poetswritersofurdu.blogspot.in
www.urduyouthforum.wordpress.com
www.khojkhabarnews.wordpress.com
www.khojkhabarnews.com
www.muslimspoety.blogspot.in
www.ataullahfaizan.blogspot.in
www.abdulahadfarhan.blogspot.in
www.hamaramp.blogspot.in
www.madhyanews.blogspot.in
www.urdupoetswriters.blogspot.in/
www.cimirror.blogspot.in
www.saleemwahid.blogspot.in

مسلمؔ سلیم, ۲۸۰، خانوں گاؤں، وی آئی پی روڈ، بھوپال۔ ۴۶۲۰۰۱
موبائل : 9009217456, 9893611323 فون : 0755-2730580
ای میل: : muslimsaleem@rediffmail.com










نعت
گذاریں زندگی ہم لوگ آقاؐ کے سلیقے سے
تو اتریں گی خدا کی رحمتیں ہر اک دریچے سے

براہِ راست بندے اور خدا کے درمیاں کیا ہے؟
ہدایت بھی وسیلے سے اطاعت بھی وسیلے سے!

وسیلہ زندگی میں بھی ہمارے کام آتا ہے
بچیں گے حزن سے روزِ قیامت بھی وسیلے سے

مقدس شہر دنیا میں بسے ہیں جا بجا لیکن
یہ راہِ امنِ عالم صرف نکلی ہے مدینے سے

جہادِ زندگی لازم ہے مسلمؔ جان لو لیکن
ملے گی کامیابی صرف آقاؐ کے طریقے سے




نعت

رب نے جس کو آخرپیحامبر طے کرلیا
اس نے کچھ لمحوں میں صدیوں کا سفر طے کر لیا

اس کے لب کی جنبشوں کو معتبر طے کر لیا
اس کے فرمودات میں ہوگا اثر طے کر لیا

نام اسکا ہر صحیفے میں بتایا اس طرح
عالمِ انسانیت کو منتَظر طے کر لیا

وہ عمارت جس سے تھی اسکو محبت بے پناہ
اس عمارت کو خدا نے اپنا گھر طے کر لیا
نور وہ باعثِ تخلیقِ دو عالم ہوا
چند نادانوں نے اس کو ہی بشر طے کر لیا

آخری خواہش جہاں والوں سے جب پوچھی گئی
سب نے جنت اور میں نے ان کا در طے کر لیا

کیوں نہ اب اسکے سخن کی داد دے سارا جہاں
مدحتِ سرور ﷺ کو مسلمؔ نے ہنر طے کرلیا











نعت
نعت گوئی کی اس عاجز کو سعادت دی ہے
یعنی دنیا ہی میں تحریکِ شفاعت دی ہے

عظمت اسلام کو اور کفر کو لعنت دی ہے
ایک بندے نے کچھ اس طرح شہادت دی ہے

سب سے اچھی ہیں عبادات درود اور سلام
ان عبادات نے جنت کی ضمانت دی ہے

قابلِ رشک ہیں وہ لوگ جنہیں دنیا میں
عالمِ خواب میں آقا ﷺ نے بشارت دی ہے

لوٹ لے آج تو رحمت کے خزانے مسلمؔ
آج اﷲ نے توفیقِ ندامت دی ہے




اردو ۔ مسلم سلیم
ہر کسوٹی پہ کھرا اترے وہ سونا اردو
کچھ بھی کھو دینا مرے یار نہ کھونا اردو

تا کہ ہر لفظ زبانوں سے مہکتا نکلے
اپنی نسلوں کے گلستان میں بونا اردو

عشقِ غالبؔ نے کیا جسکا ہے اقبالؔ بلند
میرِؔ ہر نطق زباں کیا ہے؟کہونا اردو

ہوں اٹل، نرغۂِ دشمن سے نہیں گھبراتا
کچھ بھی ہو جائے مرے گھر میں تو ہونا اردو

نوکری اپنی یہ مسلمؔ نے سمجھ رکھّی ہے
سب کے گلدستۂِ ہستی میں پرونا اردو
(خاص طور سے ہند کے تناظر میں)




غزل

دل جہاں لاکھوں پڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
ہم بھی اس رہ میں کھڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے

آپ کی مانند چلتے تھے اکڑ کر جو کبھی
خاک میں وہ سب گڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے

کھیل بچّوں کا نہیں ہے، عشق کا رستہ ہے یہ
مرحلے سارے کڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے

گدڑیوں میں رہ کے خدمت خلق کی کرتے ہیں جو
وہ سبھی انساں بڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے

بارہا مسلمؔ کیا ہے ہم نے خونِ آرزو
خود سے ہم اکثر لڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے







غزل
وہ دور کے ہوں دوانے، کہ ہوں قریب کے لوگ
ہیں مدح خوان اسی پیکرِ عجیب کے لوگ

ہیں کار زار کئی اور بھی زمانے میں
ہلال ہی سے الجھتے ہیں کیوں صلیب کے لوگ

سروں کی گنتی نے آخر کیا اسے رسوا
امیرِ شہر پہ بھاری پڑے غریب کے لوگ

جہاں میں دھوم ہے جنکی ژرف نگاہی کی
دکھائی دیتے نہیں کیوں انھیں قریب کے لوگ

گلِ خموش کا دیتا نہیں ہے ساتھ کوئی
ہیں سارے حاشیہ بردار عندلیب کے لوگ

نظر بچا کے ہم اس دلربا سے مل آئے
گلی میں گھومتے پھرتے رہے رقیب کے لوگ

وطن سے آج چلا ہوں یہ سوچ کر مسلمؔ
کہیں تو مجھ کو ملیں گے مرے نصیب کے لوگ

















غزل
خدا سے مانگنے ہر اک تمنا ساتھ لے آیا
وہ مسجد میں بھی جب آیا تو دنیا ساتھ لے آیا

وہ کہنے کو تو اک پل تھا مگر کیا ساتھ لے آیا
وہ لمحہ اسکی سب یادوں کا صحرا ساتھ لے آیا

بڑا تقدیر والا ہے مرے اشعار کا قاری
بس اک غوطہ لگایا اور دریا ساتھ لے آیا

نیا کہنا تھا مشکل سب زمینیں پا فتادہ تھیں
مگر مسلم تھا مسلم، فکرِ تازہ ساتھ لے آیا

یہی رختِ سفر کافی ہے مسلم راہِ منزل میں
خدا کا شکر ہے وہ ساتھ اپنا ساتھ لے آیا





پنج مطلع غزل
نہ شکایت نہ گلہ اور نہ تکرار کوئی
پھر بھی رشتوں پہ لٹکتی رہی تلوار کوئی

نہ کوئی عہد نہ پیمان نہ اقرار کوئی
پھر ہوا کیسے مرے دل کا طلبگار کوئی

دوڑتا ہے مری نس نس میں اداکار کوئی
میں بھی ہوں جیسے کسی فلم کا کردار کوئی

راہ سے گذرے گا سچائی کا سردار کوئی
ہوگا میرا بھی زمانے میں خریدار کوئی

خود بھی وہ ہوگا بڑے درجہ کا فنکار کوئی
جسکا دعویٰ ہے کہ مسلم ہے سمجھدار کوئی





غزل
ہمارے دور میں یہ بھی عذاب ہوتا ہے
زیادہ نیک بھی ہونا خراب ہوتا ہے

اڑا کے اوروں کو خود کو بھی مار لیتے ہیں
وہ سوچتے ہیں کہ اس میں ثواب ہوتا ہے

اے کشت و خون کے داعی ذرا بتا تو سہی
کہ ان دھماکوں سے کیا انقلاب ہوتا ہے

پیاسے سگ کو بھی پانی پلائے تو جنت
ہمارے دین میں یوں بھی حساب ہوتا ہے

خدا کا وعدہ ہے مسلمؔ کہ حق کی راہوں میں
کرے جو صبر وہی کامیاب ہوتا ہے





غزل
یاد ہے سارا جہاں بھول گئے ہیں خود کو
سوچتے ہیں کہ کہاں بھول گئے ہیں خود کو

جیت لے گا ہمیں دشمن بڑی آسانی سے
ہو گیا سب پہ عیاں بھول گئے ہیں خود کو

اپنے اسلاف سے کٹ جانا تھا نقصانِ عظیم
سب سے بڑھ کر یہ زیاں بھول گئے ہیں خود کو

پوچھتا ہے کوئی جب نام و نشاں ہنس ہنس کر
کھل نہیں پاتی زباں بھول گئے ہیں خود کو

یاد مسلمؔ کو دلائے کوئی بیتی باتیں
آج کل تو یہ میاں بھول گئے ہیں خود کو








غزل
ّآسان اتنا شاہ کا انصاف ہو گیا
جو راستے میں آیا وہی صاف ہو گیا

دولت سے داغِ جرم ہر اک صاف ہو گیا
لو آج وہ بھی شاملِ اشراف ہو گیا

الفت میں اپنے خون کا دریا بہا دیا
اب سوچتے ہیں ہم سے یہ اسراف ہو گیا

باقی نہیں ہے کوئی کدورت، نہ کوئی رنج
صوفی بنا تو قلب مرا صاف ہوگیا
نورِ ازل سے دھل گئی آلودگی تمام
شیشے کی طرح دل مرا شفّاف ہو گیا

اے وائے مصلحت کہ فقط بت بنا رہا
کیا کیا نہ کشت و خوں مرے اطراف ہو گیا

مسلمؔ کی راہ اس لئے مسدود ہو گئی
متروک اب طریقۂِ اسلاف ہو گیا

















غزل
اس لئے جیت کر ہر اک میداں بڑھ گئے رزم گاہ سے آگے
ہم نے اپنی نگاہ رکھی تھی دشمنوں کی نگاہ سے آگے

پہلے تھا ملک میں بس اک ظالم سب جسے بادشاہ کہتے تھے
اب تو اپنے ہیں سینکڑوں آقا ظلم میں عالی جاہ سے آگے

دھند پر کیوں نگاہ ٹھہری ہے کام لیں وسعتِ نظر سے ذرا
کارواں ہے رواں دواں کوئی دیکھئے گردِ راہ سے آگے

کوئی تنگی نہ جان کا خطرہ اصل میں عیش اسکو کہتے ہیں
زندگی اپنی کتنی اچھی ہے مثلِِ سائل نہ شاہ سے آگے

ہم خطاکار تھے مگر رب نے ہم کو اپنی پناہ میں رکھا
ہر قدم پر ملی ہمیں مسلمؔ اس کی رحمت گناہ سے آگے








غزل
ناگاہ جاگ اٹھا وہ یہ ہم پر عذاب تھا
ہم خواب بُن رہے تھے وہ جب محوِ خواب تھا

وہ آخری حبیب بھی مثلِ سراب تھا
اپنی ہر آرزو کا مقدر خراب تھا

محشر میں ہم نے دیکھا عجب ہی حساب تھا
ناکام جو یہاں تھا وہاں کامیاب تھا

پردا اٹھا کے دیکھا تو آنکھوں میں تھی حیا
یعنی کہ اس حجاب کے اندر حجاب تھا
جو کچھ ہے اس زمیں پہ علیؑ کا رہین ہے
انکا اسی لئے تو لقب بو تراب تھا

امّیدوار کتنے ہی ناکام ہو گئے
مشکل تھا امتحاں کہ وفا کا نصاب تھا

نازاں بہت تھا اپنی محبت کی جیت پر
مسلمؔ خود اس نظر کا مگر انتخاب تھا



















غزل

کارواں کدھر جائے شور اک اٹھا سا ہے
جسکو تھا پتہ سب کچھ وہ تولاپتہ سا ہے

پاس ہو کے بھی ہم سے وہ خفا خفا سا ہے
دوریاں ہیں میلوں کی فاصلہ ذرا سا ہے

بے خبر ہے وہ ہم سے، اسکے گھر چراغاں ہے
جسکی یاد میں اپنا دل بجھا بجھا سا ہے

رنگ آتے جاتے ہیں کتنے اسکے چہرے پر
حسن اسکا اب دیکھو جب کہ وہ خفا سا ہے
کیا خبر تھی شوق اسکو ہے لہو بہانے کا
یہ سمجھ کے جاں دی تھی میرا بھائی پیاسا ہے

مسلکوں کی باریکی ہم نہیں سمجھ پائے
راستہ کے اندر بھی ایک راستہ سا ہے

وہ کبھی نہ آئے گاخوب ہے پتہ ہمکوؔ
وہ پلٹ کے آئے گا یہ تو بس دلاسہ ہے

وہ وہی تھا لیکن کیوں بارہا لگا مجھکو
وہ نہیں ہے وہ مسلمؔ کوئی دوسرا سا ہے










غزل

وہ نہ بدنام ہو کہیں مسلمؔ ، بس یہی فکر ہم پہ بھاری ہے
اس کی خاطر گریز ہے اس سے، دل پہ یہ جبر اختیاری ہے

عزتِ نفس چاہنے والے، جان لیں یہ عمل ہے دنیا کا
حسنِ بے باک سے ہے بے باکی، پردہ داروں سے پردہ داری ہے

کرتے ہیں ہم پہ وہ کرم پہ کرم، سلسلہ فیض کا یہ جاری ہے
شکرئیے کو بھی منع کرتے ہیں، یہ ادا اور انکی پیاری ہے

یہ ہے پنچھی کھلی ہواؤں کا، اس پہ کس کی اجارہ داری ہے
آپ کا جسم غیر کا ہے مگر ، آپ کی یاد تو ہماری ہے

آج سے جوگ لے لیا ہم نے، تم ہو دیوی یہ دل پجاری ہے
جو متاعِ سخن ہماری ہے، آج سے سب وہ بس تمھاری ہے

نشّے کافور سارے ہو جائیں، سارے میخانے بند ہو جائیں
سر سے لیکن نہیں اترتی ہے، عشق کی بھی عجب خماری ہے





غزل
وہ مجھ کو سمجھنے میں جو ناکام رہا ہے
خود مجھ پہ ہی اس جرم کا الزام رہا ہے

وہ تیز ہوا ہے کہ میں گر جاتا کبھی کا
اندیکھا کوئی ہاتھ مجھے تھام رہا ہے

ہرصبح کا ہوتا ہے ترے ذکر سے آغاز
اور تذکرہ تیرا ہی ہر اک شام رہا ہے

آزادی کی یاد آتی ہے چڑیا کو، قفس میں
ویسے تو ہر اک بات کا آرام رہا ہے

ہاں جنگ کے میدان میں اترا تو ہے مسلمؔ
مقصود مگر امن کا پیغام رہا ہے








غزل
پری کا اسکے اندر سے نکلنا
جہانِ خواب بستر سے نکلنا

دہکتی ریت پر پھر میں نے دیکھا
سمندر میری ٹھوکر سے نکلنا

جو ممکن ہو بجھادے پیاس میری
بجا ہے آب گوہر سے نکلنا

نہ جانے کس جگہ مل جائے دہشت
دعائیں پڑھ کے سب گھر سے نکلنا
بھرے گا پیکرِ تصویر میںِ خوں
محبت کا وہ منظر سے نکلنا

جو ممکن ہو تو پھر دنیا ہے جنت
ندامت نوکِ خنجر سے نکلنا

عجب اشعار مسلمؔ نے کہے ہیں
کہ جیسے آب پتھر سے نکلنا

















غزل
کس قدر پانی ہے پہلے اس کا اندازہ کیا
بند پھر اپنی مدد کا اس نے دروازہ کیا
ا
پنے اندر ہم نے اسکو اس طرح زندہ رکھا
زخم جب بھرنے لگے تو یاد کو تازہ کیا

کوئی سمجھوتا نہیں قدروں سے شہرت کے لئے
اس لئے ہم نے سدا بطلانِ آوازہ کیا

داد کیا دوں یہ شفق مرہونِ حسنِ یار ہے
آسماں نے لے کے اُس رخسار سے غازہ کیا

کوئی تو مسلمؔ سبق سکھلائے اس نقّاد کو
بیر بل نے جیسے اک ملّا کو دو پیازہ کیا





غزل
تب مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے مخمل یاد کا
سر پہ جب سایہ فگن ہوتا ہے بادل یاد کا

جان و دل میں جب مہک اٹھتا ہے صندل یاد کا
سو غموں کو دور کر دیتا ہے اک پل یاد کا

وادی ؤ دشت و چمن میں لیکے پھرتے ہیں ہمیں
ریلا دیوانی ہوا کا، زور پاگل یاد کا

ہو گئے ناکام سب دل بستگی کے مشغلے
سلسلہ تھمتا نہیں اسکی مسلسل یاد کا

اک عجب عالم ہے مسلمؔ کیا کہیں، کس سے کہیں؟
دور تک بس ہم ہی ہم ہیں اور جنگل یاد کا



ایک قطع اور چند اشعار
ّآج صندوق سے دیرینہ زمانے نکلے
ڈائری کھولی تو یادوں کے خزانے نکلے

ایسے ماضی کی پھواروں نے بھگویا ہم کو
جیسے بچہ کوئی بارش میں نہانے نکلے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی اشعار۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگ افسردہ تھے ہم ان کو ہنسانے نکلے
آج پھر زخم زمانے کو دکھانے نکلے

وعدۂِ وصل کچھ اس طرح نبھانے نکلے
اپنے گھر سے وہ سہیلی کی بہانے نکلے

لوگ پھرتے ہیں یہاں بھیس بدل کہ مسلمؔ
شکلِ درویش میں اب کون نجانے نکلے




غزل

جنوں زدہ سی بدن اپنا ڈھک رہی ہے وفا
بچھڑ کے آپ سے در در بھٹک رہی ہے وفا

لہو لہان، دریدہ لباس ہیں لیکن
ہمارے چہرے پہ اب بھی چمک رہی ہے وفا

خبر ہے خوب وہ انساں نہیں ہے پتھر ہے
مگر سر اپنااسی پر پٹک رہی ہے وفا

رہی ہے وفا



رہی ہے وفا








غزل
رات بھر چنتے ہیں اکثر لعل و گوہر خواب کے
صبحدم روتے ہیں ہم ٹکڑے اٹھا کر خواب کے

خواب کی جانب چلے پیغام لے کر خواب کے
یوں اڑے دل کی منڈیروں سے کبوتر خواب کے

جان و دل اپنے ہیں صدقے اس منور خواب کے
جاگتی آنکھوں میں رہنے دو وہ منظر خواب کے

کون دیتا ورنہ آنکھوں کے چھلاووں پر دھیان
آپ کے آنے سے جاگے ہیں مقدر خواب کے
زندگی میں اتنی تلخی سہہ نہ پاتے ہم کبھی
یہ تو اچھا ہے کہ سب تھے تیرونشتر خواب کے

آنکھ کھلتے ہی حقیقت کی ہوئے کافور سب
تشنگی کیسے بجھا پاتے سمندر خواب کے

زندگی مسلمؔ کی پھر شرمندۂِ فردوس ہو
کاش ہوجائے حقیت بھی برابر خواب کے
















غزل

ہو اگر عاجز تو پھر حاجت روا بنتے ہو کیوں
کام ہے یہ تو خدا کا تم خدا بنتے ہو کیوں

درسِ رحمت بھول کر کیوں بن گئے بیدادگر
سب کے حق میں پیکرِ جوروجفا بنتے ہو کیوں

ہر قدم کج فہمیاں ہیں، ہر قدم گمراہیاں
حق شناس و حق نگر اور حق نما بنتے ہو کیوں

ہو اگر مقدور رکھّو ساتھ کوئی راہبر
راہ گم گشتہ عزیزو! رہمنا بنتے ہو کیوں

فرض مسلمؔ پر قیامِ امن ہے یہ جان لو
یوں کھلونا بے جہت جذبات کا بنتے ہو کیوں

غزل

اس لئے چہرۂِ حسیں ہے زرد
جم گئی خواب کے سفر کی گرد

عام انسان کی طرح جینا
نہ ہوا ہم سے ہر چہ خواہم کرد

اور بھی حوصلہ دیا مجھ کو
میرے بدخواہ تھے مرے ہمدرد

گرم بازارئِ ہوس کے سبب
ان دنوں عشق کی ہوا ہے سرد

درد کیا ہے یہ کوئی کیا جانے
وہی جانے جو سہہ رہا ہے درد

سامنے وہ ہیں کیا کرے مسلمؔ
ذہن و دل میں چھڑی ہوئی ہے نبرد





غزل
مغربی بازاریت کی دین یہ ہیجان ہے
حسنِ نسواں اب فقط تفریح کا سامان ہے

مکر آرائش ہے اسکی،جھوٹ اسکی شان ہے
مت بہک جانا، یہ گورا میڈیا شیطان ہے

خود تو گویا قتل و غارت، ظلم سے انجان ہے
ہر برائی کے لئے اسلام پر بہتان ہے

اُس کی ہرزہ گوئیوں پر مہرِ استحسان ہے
ہم نے گر کچھ کہہ دیا تو ہر طرف طوفان ہے

حق پہ جینا ، حق پہ مر مٹنا ہی اسکی شان ہے
سچ تو یہ ہے دہر میں مسلم ہی بس انسان ہے







غزل
ّ
آج ان کے ہی خلاف ہے ڈٹ کر کھڑا ہوا
جن کی نوازشوں سے وہ لڑکا بڑا ہوا

عرضی لگاؤ اور کرو دوڑ دھوپ بھی
اعزاز کیا ملے گا سڑک پر پڑا ہوا

معلوم ہے اسے کہ غلط راہ پر ہے وہ
لیکن زمانہ ضد پہ ہے اپنی اڑا ہوا

دیوار و در بھی کانپتے تھے اسکے رعب سے
کونے میں گھر کے ہے جو وہ بوڑھا پڑا ہوا
کردار ۔ اور ساتھ میں حق گوئی کی ادا!
سونا کھرا ۔ اور اس پہ ہے ہیرا جڑا ہوا

وہ دورِ امتحان کا ساتھی نہیں، نہ ہو
کیوں دشمنوں کی صف میں ہے آخر کھڑا ہوا

اس کو تو بس سہارا ہے خیر الانام ﷺ کا
مسلم ہے آندھیوں میں بھی تن کر کھڑا ہوا
















غزل

اس سے اکثر بات دل کی کہتے کہتے رہ گئے
مدتّوں درد نہاں پھر سہتے سہتے کہہ گئے

کیا خبر پھر کون سے رُت میں ابھر آئیں گے وہ
ذہن کے گوشے میں جو بھی کرب دب کر رہ گئے

ہے ہماری ہی خطا ہم اس قدر حسّاس تھے
یاد کے نشتر ہمارے دل میں تہہ در تہہ گئے

اپنی صدّامی نہج کی ہار طے تھی سر بہ سر
یہ بھی کیا کم ہے کہ اس ظالم کو دے کر شہہ گئے

گھومنا ممکن نہ تھا پہیا مخالف سمت میں
وقت کے سیلاب میں مسلمؔ بھی آخر بہہ گئے

غزل

وہ کاٹتے نہیں تاریکیوں کے جالوں کو
ہمارے دور میں کیا ہو گیا اجالوں کو

مرے جنوں سے وہ صدمہ ہے خوش جمالوں کو
کوئی مثال ہی ملتی نہیں مثالوں کو

ذراسنبھل کے دلِ سادہ لوح رہنا تو
وہ آج ڈھونڈھنے نکلا ہے تر نوالوں کو

کوئی مذاق نہ تھا راہِ راست پر چلنا
میں جھیلتا رہا ہر قسم کے سوالوں کو

زمانہ سازوں کے کانوں پر برق بن کے گری
مری غزل پسند آئی ضمیر والوں کو

رسائی ذہن کی پرواز پر جب آئے گی
یہ لوگ سمجھیں گے مسلم ترے خیالوں کو




غزل

جی چاہا کئی بار کہ میں خود کو گنوا دوں
پھر سوچا کہ پہلے ترا پردہ تو اٹھا دوں

ابلیسی شجر راکھ سے پھر ہوگا نمودار
کیا ہوگا اگر سارے زمانے کو جلا دوں

اس دشت کے سناٹے نے توڑے وہ عزائم
دشمن بھی نظر آئے تو میں اسکو صدا دوں

نقاد یہ کہتا کہ کر میری غلامی
شاعر تجھے میں اوجِ ثریا پہ بٹھا دوں

مسلم مجھے لیکن مری عزلت ہے گوارا
گھر بیٹھ کے خاموشی سے میں فن کو جِلا دوں




غزل

میری آنکھیں، خواب تمھارے
ہر پل دیکھیں، خواب تمہارے

سوئی صبحیں، خواب تمہارے
جاگی شامیں، خواب تمہارے

اکثر کر کے چھوڑ گئے ہیں
بھیگی پلکیں، خواب تمہارے

جاگی آنکھیں دیکھ رہی ہیں
دل ہی دل میں خواب تمہارے

مسلمؔ کی نظروں کے آگے
بس لہرائیں خواب تمہارے




غزل ۔ (فیس بک پر ایک گرافکس سے متاثر ہو کر)

خبر بھی ہے کہ محبت گلاب ہوتی ہے
لہو کے رنگ سے الفت گلاب ہوتی ہے

ہزار اسکو چھپاؤ مگر مہکتی ہے
دلوں کی کیاری میں چاہت گلاب ہوتی ہے

یہ سہہ نہ پائیں گے بادِ سموم نفرت کی
تعلقات کی فطرت گلاب ہوتی ہے

خیال بن کے مری خار زار ہستی میں
تم آتے ہو تو طبیعت گلاب ہوتی ہے

یہ آرزو کوئی مسلمؔ پہ ہی نہیں موقوف
ہر ایک شخص کی حسرت گلاب ہوتی ہے

غزل

آدمی کو یوں بھی دیکھا جائے ہے
عقل کو پیسے سے ناپا جائے ہے

ڈھیر سا آنکھوں میں پانی لے چلو
اس کے گھر صحرا سے رستہ جائے ہے

ہے عجب اس کے خزانے کا مزاج
جس پہ برسے بس برستا جائے ہے

خود نہیں ہے اس کو منزل کا پتہ
جس کے پیچھے ساری دنیا جائے ہے

دن کو تھوڑا کم لگے ہے تیرا غم
رات کو یہ درد گہرا جائے ہے

جتنی پا لیتا ہے وہ اونچائیاں
اصل میں اتنا ہی گرتا جائے ہے




غزل

نہ جارحانہ سے تیور، نہ باغیانہ مزاج
ہمیں تو راس ہے اپنا قلندرانہ مزاج

ہمیں تو رحم ہی اسلام نے سکھایا ہے
کہاں سے آگیا ہم میں یہ آمرانہ مزاج

جہاں سے اتنے کھلے دل سے مت ملا کیجے
کہ ہو نہ باعثِ رسوائی والہانہ مزاج

عظیم شاعر و انساں سلیمؔ واحد سے
ملا ہے ورثہ میں مجھکو سخنورانہ مزاج

فنا خدا کی محبت میں ہو اگر مسلمؔ
سبھی مزاجوں سے بہتر ہے عاشقانہ مزاج




غزل

سب گناہوں سے اگرچہ دور ہے
جسمِ راہب سیکس سے مجبور ہے

جنگ کرتا ہے وہ فطرت کے خلاف
اس لئے جذبوں تلے وہ چوُر ہے

کچھ مرے اظہار میں ہوگی کمی
کیسے کہہ دوں میں کہ وہ مغرور ہے

دیکھئے حسنِ سیاست حسن کا
میں بھی خوش ہوں، غیر بھی مسرور ہے

واہ مسلم بحرِ معنیٰ تیرا شعر
صرف دو سطروں میں سب مستور ہے


غزل
کیا انکو پڑھیں اب یہ حقائق سے پرے ہیں
اخبار تو سب ریپ کی خبروں سے بھرے ہیں

کیا انکو ڈراتا ہے، کبھی وہ بھی ڈرے ہیں
ہر خطرہ کو تیار ہیں جو لوگ کھرے ہیں

معصوموں کی جانوں سے نہیں ملتی ہے جنت
سمجھائیں انھیں کیسے وہ نادان دھرے ہیں

تم مارنے والوں نے شہید انکو کیا ہے
جنت میں وہ جائیں گے کہ جو لوگ مرے ہیں

اوروں کی جراحت کے نشاں بھی نہیں باقی
کچھ زخم جو اپنوں نے دئے ہیں وہ ہرے ہیں

مسلمؔ ہمیں خدشہ ہے فقط اپنے ہی شر سے
اوروں سے نہیں اپنے ہی سائے سے ڈرے ہیں







غزل

کیا ہے گر بے نقاب رہتا ہے
اس نظر میں حجاب رہتا ہے

کوئی خوشیوں کے پل نہیں گنتا
آنسوؤں کا حساب رہتا ہے

کھویا کھویا سا مت سمجھ مجھ کو
فکر میں انقلاب رہتا ہے

جو اہانت کرے بزرگوں کی
اس کا خانہ خراب رہتا ہے






غزل
(فیس بک پر ایک گرافکس سے متاثر ہوکر)

دل دُکھاتا ہے کیا کوئی غم جی
چشم کیوں آپ کی ہے پُر نم جی

بھیڑ ہے آج دل میں یادوں کی
کیوں کہ اک یاد کا ہے ماتم جی

بخش دیجے خطائیں عاصی کی
آپ کیوں اس قدر ہیں برہم جی

کچھ دنوں کی بہار تھی مسلمؔ
آگیا پھر خزاں کا موسم جی

غزل

مقدر کو وہ کوسے کس بلا کو ہم بلا بیٹھے
چلیں جب ہم تو مسلم سر پکڑ کر راستہ بیٹھے

اسی پل لوگ اپنے راز کی عصمت گنوا بیٹھے
جو سننے کے لئے نا اہل تھا اسکو بتا بیٹھے

کبھی انکے خدا سوئے کبھی انکے خدا جاگے
کبھی انکے خدا اٹھّے کبھی انکے خدا بیٹھے

بس اک محفل یہی امید کی کرنوں سے روشن ہے
تو بس ہم دل کو چمکانے تری محفل میں آبیٹھے

کبھی ممکن نہیں لیکن دلی خواہش ہے یہ اسکی
کہ جب بھی وہ چلے قدموں میں آکے راستہ بیٹھے

محبت امن اور انصاف سے جینا ہی جینا ہے
وہ دل کیا خوب دل ہو جس میں مسلم کی صدا بیٹھے




غزل

بہار لائے تھے یہ انکا احترام کرو
خزاں رسیدہ درختوں کو بھی سلام کرو

یہ گھر تمہارا ہے اس دل میں تم قیام کرو
یہیں پہ صبح گذارو یہیں پہ شام کرو

ہمارے دین نے ہم کو یہی سکھایا ہے
مٹاؤ بیر، محبت کا ذکر عام کرو










غزل

بے جان اور سپاٹ سے چہرے ہوئے ہیں لوگ
تج کر ضمیر جب سے سنہرے ہوئے ہیں لوگ

دل کی صداؤں پر کوئی ردِّ عمل نہیں
یوں لگ رہا ہے جیسے کہ بہرے ہوئے ہیں لوگ

وہ بارہا ہوئے ہیں زمانے میں سر بلند
جب بھی معاشرے میں اکہرئے ہوئے ہیں لوگ

لگتا ہے ہو نہ پائے گا اب کوئی راز فاش
دلچسپی میری دیکھ کے گہرے ہوئے ہیں لوگ

مسلم تو منزلوں سے بھی آگے نکل گیا
کیوں ایک ہی مقام پہ ٹھہرے ہوئے ہیں لوگ

غزل

عمر کا دشمن شور مچاتا رہتا ہے
دل میں بچپن شور مچاتا رہتا ہے

لاکھ کرے وہ کوشش جرم چھپانے کی
اس کا دامن شور مچاتا رہتا ہے

ہے تخلیق سے عاری ناقد جانے دو
خالی برتن شور مچاتا رہتا ہے

دیکھ کے یاروں کو اکثر یہ ناداں دل
دشمن! دشمن! شور مچاتا رہتا ہے

پیچھے پلٹو غوری پر بھی غور کرو
دل کا بلبن شور مچاتا رہتا ہے

مسلم کیسے دیکھیں رونق باہر کی
گھر کا بندھن شور مچاتا رہتا ہے



غزل

ہم بہت خوش ہیں ہمیں پہچانتا کوئی نہیں
ہم کو ہے سب کا پتہ اپنا پتہ کوئی نہیں

اب نہ موسیٰ ہیں نہ ہے ضربِ عصا کوئی نہیں
اس سمندر میں بھی لیکن راستہ کوئی نہیں

منحصر ہے وقت پر سب چوکتا کوئی نہیں
یہ غلط فہمی نہ پالو دیوتا کوئی نہیں

اسکو زندوں میں کریں شامل تو ہم کیسے کریں

جس سے کوئی خوش نہیں ہے اور خفا کوئی نہیں

اب نہ چھیڑو راگ گذرے وقت کا مسلم میاں
اب بزرگوں کی نصیحت مانتا کوئی نہں

طرحی پنج غزلہ

72547254مصرعہ ’’دیکھنے کو تری آنکھوں میں بصارت دی ہے‘‘
(۱)
وقت نے جب کسی ظالم کو حکومت دی ہے
مجھکو حالات نے لہجے میں بغاوت دی ہے

جذبہ ؤ جوش صداقت نے یہ حّدت دی ہے
آنچ الفاظ میں اظہار میں شدت دی ہے

پیش قدمی کی توقع تھی بہت، دشمن کو
ہم نے پسپائی کے حربہ سے حزیمت دی ہے

کچھ تو کام آگیا آخر کو مرا پاگل پن
مجھ کو پتھر دئے لیکن تجھے شہرت دی ہے

وہ لٹاتا ہے بہت انس و وفا لوگوں پر
رب نے دولت دلِ مسلمؔ کو بکثرت دی ہے

(۲)
بر محل شعروں میں الفاظ کی صنعت دی ہے
مجھ کو پروازِ تخیّل نے یہ حرفت دی ہے

آپ اردو کے مخالف ہیں مگر سچ یہ ہے
آپ کے لہجے کو اردو نے حلاوت دی ہے

ملک کو اس نے ہی تہذیب سکھائی ہے نئی
جس پہ نازاں ہیں سبھی ایسی ثقافت دی ہے

دشمنوں کو بھی بھگانے میں مددگار ہوئی
جنگِ آزادی کے نعروں کو بھی طاقت دی ہے

ناز مسلمؔ کو ہے اردو پہ کہ سب پہلے
خطۂِ ہند کو اس نے ہی صحافت دی ہے

(۳)
شکر کر رب کا کہ دیدار کی جنت دی ہے
’’دیکھنے کو تری آنکھوں میں بصارت دی ہے‘‘

یار اٹھ کر نہ چلا جائے کہیں پہلو سے
اس لئے بات کو کچھ اور طوالت دی ہے

شرم سے ہونٹ سلے ہیں یہ پتہ ہے ہمکو
ہم نے کب آپ کو اظہار کی زحمت دی ہے

جو نظر بھر کے اسے دیکھے گا جل جائے گا
اسکے چہرے نے تو سورج کا تمازت دی ہے

جب بہت بول چکا وہ تو یہ مسلمؔ سے کہا
شکر ہے رب کا کہ کم گوئی کی عادت د ی ہے
(۴)
سوچئے کس نے یہ سیلاب کی آفت دی ہے
7129ن حوادث کو خود انسان نے دعوت دی ہے

حشر ہوگا یہی فطرت سے اگر کھیلو گے
اتّراکھنڈ میں قدرت نے نصیحت دی ہے

اپنے اعمال سے تو اس کو جہنم نہ بنا
تجھ کو اﷲ نے کہسار کی جنت دی ہے
ڈالی ڈالی کو وہاں اس نے ثمر بار کیا
سبزہ ؤ گل کی بھی سوغات نہایت دی ہے

کچھ زیادہ نہیں اتنا ہی کہے گا مسلمؔ
اسکو زحمت نہ بناؤ کہ جو رحمت دی ہے
(۵)
اس حسیں پل میں تری یاد کو دعوت دی ہے
جب بھی ہم کو کبھی حالات نے مہلت دی ہے

گوشۂِ قلب میں بس جانے کی دعوت دی ہے
آج اُن آنکھوں نے ہم کو یہ اجازت دی ہے

عمر بھر عشق نے مصروف رکھا ہے ہم کو
آزمانے کے لئے حسن کو فرصت دی ہے

بات جب نکلی ہے ظالم کی ثنا خوانی کی
ہم نے چپ رہ کے بھی دنیا کو نصیحت دی ہے

دیکھتا ہے وہ جدھر تو ہی نظر آتا ہے
چشمِ مسلمؔ کو یہ الفت نے کرامت دی ہے


طرحی سہ غزلہ برائے فیس بک محبت گروپ
عالمی آن لائن مشاعرہ : ۲۵؍ مئی ۲۰۱۳
(۱)
نہ کچھ مزاج میں نرمی نہ ہے لچک کوئی
تو اسکے ساتھ چلے کیسے دور تک کوئی

تھی لاشعور میں آہٹ کسی کے قدموں کی
پلٹ کے دیکھا، نہ تھا دور دور تک کوئی

وہ صرف یاد تھی لیکن شدید تھی اتنی
کہ جیسے آ گیا پہلو میں یک بییک کوئی

بس ایک پل میں تعلق تو ترک کر بیٹھے
تمام عمر ستاتی رہی کسک کوئی

شجر تو کاٹ دیا یہ مگر نہیں سوچا
سنائی دے گی نہ چڑیوں کی اب چہک کوئی

کسی زمانے میں اسکو خلوص کہتے تھے
یہ شعلہ بجھ گیا اس میں نہیں لپک کوئی

بہشت ملتی ہے دہشت سے اور تشدّد سے
نکال ڈالے دماغوں سے یہ سنک کوئی

چہار سمت سے دشمن نے ہم کو گھیر لیا
کسی بھی سمت سے آتی نہیں کمک کوئی

ہے حق کا معرکہ، کوئی بلاؤ مسلمؔ کو
کہ صاف گوئی سے اس کو نہیں جھجھک کوئی
(۲)
جو چاند تاروں میں ہے یہ بھی ہے دمک کوئی
دکھائے آپ سا چہرا ہمیں فلک کوئی

یہ چوڑیاں یہ دوپٹہ یہ عارضِ گلگوں
چرا لے رنگ نہ انکے کہیں دھنک کوئی

نہ کوئی شور نہ آہٹ، کسی کے جانے سے
یہ دل کا کوچہ ہے سنسان سی سڑک کوئی
صدائیں کیسی اٹھی ہیں یہ اسکی پایل سے
بتا رہی ہے ہمیں راز یہ چھنک کوئی

تمہارے ساتھ ہمیں دیکھ کر اٹھا محشر
کسی کی جان جلی رہ گیا ہے بھک کوئی

بھلا رہے تھے کہ پھر ذکر اسکا چھیڑ دیا
ہمارے زخموں پہ ملنے لگا نمک کوئی

سبھی یہ کہتے ہیں مسلمؔ ہے ان کا دیوانہ
یہ بات سچ ہے تو اس میں نہیں ہتک کوئی
(۳)
تمھارے آنے کی کیا مل گئی بھنک کوئی
’’ابھر رہی ہے چراغوں میں پھر چمک کوئی‘‘

پرانے دور کی ہم کو دکھا جھلک کوئی
یہ کیا نوا ہے کہ جس میں نہیں لپک کوئی

بس ایک شورنئے دور کی ہے موسیقی
کہ اب صداؤں میں باقی نہیں کھنک کوئی
پھر اس کے بعد ان آنکھوں میں کوئی بھی نہ جچا
کچھ اس ادا سے دکھا کر گیا جھلک کوئی

ہماری بزم میں وہ نور بن کے کیا آئے
کھلی ہی رہ گئی، جھپکی نہیں پلک کوئی

کسی کو دوست بنانے کی ہو اگر خواہش
تلاش اس میں کرو قدرِ مشترک کوئی

کسی گروہ سے وابستگی نہیں اپنی
ہم ایسے لوگوں کو ملتا نہیں پدک کوئی

یہ فیس بک سے ہی دن رات چپکارہتا ہے
سوار ذہن پہ مسلمؔ کے کیا ہے جھک کوئی

کمک: Reinforcement
پدک: Medal




دو غزلہ کے دو رنگ
(۱) محبوب کے نام[
یہ جسم کرتا ہے اکثر بہت سوال تر۱
رگوں میں دوڑنے لگتا ہے جب خیال ترا
قدم بچا کے رکھوں میں اگر تو کیسے رکھوں
ہر ایک سمت تو پھیلا ہوا ہے جال ترا
قریب سے جو بچا کر نظر نکلتے ہیں
ذرا سنبھل، یہی پوچھیں گے حال چال ترا
چلا سفر پہ جو تو ان کی راہ سے ہٹ کر
تو آج دیکھ لے کیا ہوگیا ہے حال ترا
(۲) دشمن کے نام
عروج ہونے کو بے شک ہے بے مثال ترا
وہ دن بھی سوچ کہ جب آئے گا زوال ترا
دہک اٹھے گا کسی روز خود ترا ہی بدن
تباہ کردے گا تجھ کو یہ اشتعال ترا
ابھی تو سیر ستاروں کی کر رہا ہے تو
زمانہ دیکھے گا اک دن مگر زوال ترا
الٹ دے مسلمِ خستہ کے دشمنوں کے نگر
جمال والے دکھا دے ذرا جلال ترا




غزل

محبت میں انا کیا، نام کیا ہے
انا ہے تو وفا کا کام کیا ہے

سزاؤں پر سزائیں دے رہا ہے
بتائے تو سہی الزام کیا ہے

بچھڑ کر اس سے پھر ہم نے جانا
سکوں کیا چیز ہے، آرام کیا ہے

اگردیکھو، شکستِ دل کو دیکھو
نہ یہ دیکھو شکستِ جام کیا ہے

ؓکسی کی یاد دفنانے چلے ہو
جہانِ دل میں یہ کہرا م کیا ہے



قطعات


پیامِ امن
ہر طرف یہ پیام دینا ہے
امن کا اذنِ عام دینا ہے
میرے نزدیک مقصدِ اسلام
رحمتوں کا نظام دینا ہے

محمد رفیع
کہیں سایہ کہیں کھلی ہے دھوپ
ایک آواز اور ہزاروں روپ
کوئی نغمہ کسی بھی راگ میں ہو
انکی آواز نے دیا سوروپ





پہلے تو اس حسیں کے خیالوں میں گم رہا
پھر اس کے بعد سب کے سوالوں میں گم رہا
تشبیہ کس سے دوں اسے کیسے بیاں کروں
بے مثل دلربا کی مثالوں میں گم رہا

عاشق کی عید
جو آپ کی خاطر ہوئی تنقید ، مبارک
دو بارہ نہیں ملنے کی تاکید ، مبارک
دشنام پہ، جھڑکی پہ ہمارا یہ عمل ہے
ہر حال میں کہتے ہیں یہی، عید مبارک

نوجوانوں کی عید
جشنِ الفت کا انتظام کیا
عید کا ایسے اہتمام کیا
چھت پہ جاتے ہی بس یہ کام کیا
ؑ عید کے چاند کو سلام کیا




پھسلاجو مرے ہاتھ سے وہ دستِ حنائی
اک وعد�ۂِ فردا بھی کیا وقتِ جدائی
اس نے یہ کہا تم کو بہت یاد کریں گے
پھر یوں بھی ہوا اسکو مری یاد نہ آئی



شعر کہتے ہیں جس حسیں کے لئے
سب سے پہلے اسے سناتے ہیں
جب وہ کہہ دے کہ ہاں بہت اچھا
خوب دنیا سے داد پاتے ہیں


تم اک کرن ہو جو شمیں جلائے رہتی ہے
تم اک خوشی ہوجو دل میں سمائے رہتی ہے
خبر یہ خوب ہے مسلمؔ کہ دشمنِ جاں ہو
یہ جاں تمہیں سے مگر لو لگائے رہتی ہے


نام نہاد دھارمک رہنما
موّدبانہ طریقے سے بولتے بھی رہے
مگر نظر سے بدن کو ٹٹولتے بھی رہے
نظیرِ فقروقناعت بنے رہے لیکن
بٹن ہوس کے لبادے کے کھولتے بھی رہے


ایک قطعہ ۔ بیکار سا
کچھ نہ پایا، مفت کا سودا کیا
لوگ کہتے ہیں یہ ہم نے کیا کیا
تھی یہ اک بے کار سی شئے جسم میں
دل کسی کو دے دیا اچھا کیا


بہت کم لوگ مجھ کو جانتے ہیں
مگر جو جانتے ہیں، مانتے ہیں
میں ہوں صورت گرِ افکارِ تازہ
یہ سب اچھی طرح پہچانتے ہیں


برما نظر نہیںآتا
۔ مسلم سلیم ۹؍ اپریل ۲۰۱۳
عجیب روگ لگا مغربی ممالک کو
جو دیکھتے ہیں وہ پورا نظر نہیں آتا
دکھائی دیتا ہے سب کچھ انھیں زمانے میں
بس ایک خطّۂِ برما نظر نہیں آتا
جہاں پہ راج ہے چنگیزی بربریّت کا
کسی کے دل میں بھی بدھّا نظر نہیں آتا
جہاں میں فوج کشی کے لئے انھیں لیکن
سوائے مسلمِ خستہ نظر نہیں آتا
برما : میانمار
بُدھّا: گوتم بدھ امن کے علم بردار


ماہنامہ امکان کی نذر
مایوسیوں کے دور میں امید کا نقیب
مژدہ سنا رہا ہے انھیں جو ہیں فکرمند
حق گوئی، حق پرستی کا ’’امکان‘‘ ہے ابھی
ہوتی ہے لکھنؤ سے یہ آوازِ حق بلند



الفت سے انھیں سخت عداوت ہے تو بس ہے
ہم کو بھی مگران سے محبت ہے تو بس ہے
روٹھے ہیں کچھ ایسے کہ منائے نہیں منتے
بے وجہ انھیں ہم سے شکایت ہے تو بس ہے


ٖٖٖ(فیس بک پر اپنی پوسٹ پر ایک دوست کا معاندانہ تبصرہ دیکھ کر)
دشمنی خوب کرے گا یہ پتہ تھا لیکن
ہاتھ دشمن سے ملا لے گا یہ معلوم نہ تھا
پہلے رنجیدہ تھا مسلم سحروشام مگر
اسکی یادوں کے سبب اتنا بھی مغموم نہ تھا








متفرق اشعار

تری ہی مہربانی تھی کہ تجھ میں کھو گیا تھا میں
تری ہی مہربانی ہے کہ خود میں لوٹ آیا ہوں

جب تجزیہ کیا کہ وہ کیوں مجھ سے دور ہے
پایا کہ اس میں میری انا کا قصور ہے

آسماں پر ہیں ہمیں ایسا لگا
آپ گھر آئے بہت اچھا لگا

گوروں کی بستی میں گورے، کالوں کی بستی میں کالے
بستی بستی گھوم رہے ہیں گرگٹ رنگ بدلنے والے

تحفہ جہاں چھپا تھا ہمارے نصیب کا
پہنچے وہاں پہ ہاتھ پکڑ کر رقیب کا




دیگر شعراء کے مسلمؔ سلیم کے لئے منظوم تاثرات

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نئی دہلی ،انڈیا

وقت کی آواز ہیں مسلمؔ سلیم
شاعرِ ممتاز ہیں مسلمؔ سلیم

جانفزا ہے انکا تخلیقی شعور
صاحبِ اعجاز ہیں مسلمؔ سلیم

تنویر پھول (نیو یارک)
نغمۂِ تہنیت ہے ہر لب پر
بھائی مسلمؔ سلیم دیدہ ور

خوش نوا، خوش ادا، بہت مخلص
آسمانِ ادب پہ مثلِ قمر
دیکھ لو ویب سائٹ اردو کی
بھائی مسلمؔ کا خوب ہے یہ ہنر

نور پھیلاتے ہیں ادب کا صدا
داد دیتے ہیں سارے اہلِ نظر

ان کی تحریر ہے بہت اعلیٰ
ان کا طرزِ سخن رہے گا امر

کیا شگفتہ مزاج ہے ان کا
دل ہے ان کا محبتوں کا نگر

ذات میں اپنی انجمن ہیں یہ
کرتے ہیں خوب یہ دلوں میں گھر

حق پرستی، خلوص اور الفت
ان سے معمور ان کے قلب و جگر

زندہ دل، کہنہ مشق اور خوش گو
جاری برسوں سے ہے ادب کا سفر
دل سے ان کا کلام پڑھئے اگر
ان کی تحریر میں نہاں ہے اثر

ان کا پیغام عظمتِ انساں
انکے اشعار ہیں عروجِ بشر

بزمِ اردو کے ہر خزانے میں
ان کی تحریر مثلِ لعل و گہر

اس میں انسانیت کا درد بھی ہے
سوزِ دل کا نہاں ہے اسمیں اثر

نام مشہور ہندوپاک میں ہے
مثلِ مہتاب ان کی راہ گذر

ان سے شاداب گلشںِ اشعار
پھولؔ سر سبز ہے ادب کا شجر



ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نئی دہلی ،انڈیا

شاعرِ خوش فکر وخوش گفتار ہیں مسلم سلیم
اہل دانش کے معین ویار ہیں مسلم سلیم

آمدآمد سے عیاں ان کا حسن فکر وفن
عندلیب گلشن گفتار ہیں مسلم سلیم



حارث بلال ، سرگودھا، پاکستان

شاعری کا ناز ہیں مسلم سلیم
شعر کی پرواز ہیں مسلم سلیم

ان کے سب مضموں طبیعت سے قریب
زندگی کا ساز ہیں مسلم سلیم

رنگ شعروں میں گلوں کے بھرتے ہیں
شاعرِ گلساز ہیں مسلم سلیم
بات کرتے ہیں کھری اور جاندار
اک نڈر آواز ہیں مسلم سلیم
لوگ حارثؔ کہنے پر مجبور ہیں
عصر کا اعزاز ہیں مسلم سلیم


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نئی دہلی ،انڈیا

آمد آمد ہے یہ عصری آگاہی کا سے ہمکنار
ایک صحافی کے قلم کا ہے جو ادبی شاہکار

نام ہے مسلمؔ سلیم اور شخصیت تاریخ ساز
کارنامے جن کے ہیں ویب سائٹوں سے آشکار

دیکھ کر ویب سائٹیں خود رائے قائم کیجئے
علم کا ماحول ہے جن کی وجہ سے خوشگوار

اردو شعرا اور ادیبوں پر ہے جو ڈائریکٹری
اہل دانش کے لئے ہے باعث صد افتخار

خدمت اردو ہے ان کا ایک فطری مشغلہ
ہے ستم دیدہ دلوں کی شاعری ان کی پکار

مظہر سوزِ دروں ہے ان کا معیاری کلام
ہے جہانِ فکر وفن میں جس کو حاصل اعتبار

ہیں یہ رشحات قلم عصری ادب کا آئینہ
سوز وسازِ زندگی برقی ہے جن سے آشکار


فیصل نواز (لندن)
جس طرح درد کو ہونٹوں سے صدا ملتی ہے
ان کے شعروں سے ستاروں کو ضیا ملتی ہے

ندرتِ فکر سے مملوہے کلامِ مسلم
آرزوؤں کی کھنک دل کی نوا ملتی ہے

لوگ لب بستہ ہوں دہشت کی فضا میں جس دم
تب خیالات کو مسلم کی صدا ملتی ہے

میری مانو وہ معالج ہیں دماغ ودل کے
ان کے اشعار سے ذہنوں کو شفا ملتی ہے

رت بہاروں کی ہو یا دورِ خزاں ہو فیصل
ان کے اشعار سے جینے کی ادا ملتی ہے


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نئی دہلی ،انڈیا

ہیں یہ مسلم سلیم کے اشعار
ان کے ذوقِ سلیم کے غماز

خود پڑھیں اور لگائیں اندازہ
زندگی کا ہے ان میں سوز وگداز

ان کا رنگ سخن تغزل میں
ان کی تاب رساں کا ہے اعجاز

ان کے فن کا ہے قدر داں برقی
ہیں یہ اشعار. وقت کی آواز
مجید تاج بلوچ، بلوچستان، پاکستان
ہر دل میں احترام ہے مسلم سلیم کا
بے مثل وہ کلام ہے مسلم سلیم کا

ہر زاویہ کے سے کرتا ہے خدمت ادب کی جو
بس ایک ہی وہ نام ہے مسلم سلیم کا

ان کو ملا ہے ورثے میں گنج سخن وری
مشہور فیض عام ہے مسلم سلیم کا

غزلوں میں ان کی ندرتِ فکر ونظر بھی ہے
یہ بھی نظیر کام ہے مسلم سلیم کا

کرتے ہیں رہنما ہی جو استاد کی طرح
دل یہ میرا غلام ہے مسلم سلیم کا

کردو رقم یہ نام سنہری حروف سے
اونچا بہت مقام ہے مسلم سلیم کا
اے تاجؔ ! بادشاہ ہیں شہر سخن کے وہ
اب ہر زباں پر نام ہے مسلم سلیم کا
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نئی دہلی ،انڈیا

محسن اردو زبان مسلم سلیم
کارنامے جن کے ہیں بیحد عظیم

ان کی ویب سائٹ ہے گنج شائیگاں
جس سے ہے ان کا عیاں ذوق سلیم

ہے یہ اردو کے لئے ایک نیک فال
اس کی ہے ڈائریکٹری کار عظیم

ہے ادیبوں کا یہ نادر تذکرہ
جو ادب کی ہے صراط مستقیم

ہو گیا دل دیکھ کر یہ باغ باغ
چلتی ہو جیسے یہاں موج نسیم

فکر وفن ہے ان کا عصری آگاہی
ہیں وہ اہل علم ودانش کے ندیم

احمد علی خاں (ریاض، سعودی عربیہ)

علم و فن کی منزلوں کے راہ بر مسلمؔ سلیم
سائبانِ اردو کے ہیں بام و در مسلمؔ سلیم

محفلِ یاراں ہو یا ہو پھر کوئی بزمِ سخن
ہوتے ہیں جلوہ فگن مثلِ قمر مسلمؔ سلیم

وسعتِ علم و ادب کا معترف سارا جہاں
باغِ اردو کے ثمر آور شجر مسلمؔ سلیم

ان گنت اوصاف ہیں، احمدؔ رقم کیا کیا کرے
خوش بیان و خوش ادا ؤ خوش نظر مسلمؔ سلیم


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نئی دہلی ،انڈیا

عہدِنو میں سب کے منظورِ نظر مسلم سلیم
نخلِ اردو کے ترو تازہ ثمر مسلم سلیم

خدمتِ اردو ادب میں مستقل سرگرم ہیں
شاعر و ناقد ادیب و دیدہ ور مسلم سلیم

بن کے اربابِ نظر کے اک امیرِکارواں
کاروانِ شعر کے ہیں ہم سفر مسلم سلیم

آکے انٹر نٹ پہ دیکھیں ان کے یہ ۱۴ بلاگ
کارناموں سے اپنے نامور مسلم سلیم

دیکھ لیں خود آ کے گوگل سرچ میں چاہیں اگر
ہیں جہاں میں آج کتنے معتبر مسلم سلیم

نامِ نامی ان کا ویکیپیڈیا میں درج ہے
جس کی نظروں میں بھی اہلِ ہنر مسلم سلیم

نبضِ دوراں پر نہایت تیز ہے انکی نظر
جو ہیں بے چارہ ، ہیں ان کے چارہ گر مسلم سلیم

رکھتے ہیں سودوزیاں سے ہو کے برقیؔ بے نیاز
اہلِ دانش کی جہاں بھی ہو خبر مسلم سلیم
احمد علی خاں (ریاض، سعودی عربیہ)
(مسلمؔ سلیم صاحب کے دھار شہر میں ۳؍ستمبر ۲۰۱۳کو
اعزاز پرنذرانۂِ عقیدت )
وہ تھامے پرچمِ اردو کہاں کہاں پہنچا
اٹھا بھوپال سے ، اب دھار کارواں پہنچا
جو دیکھا دھو پ میں پودا کوئی جھلستے ہوئے
تو بن کے سایۂِ شفقت وہ باغباں پہنچا
کمالِ ہستی ہے یا یہ کشش کلام کی ہے
کہ ان کی بزم میں ہر پیر و نوجواں پہنچا
بلند اتنا ہوا ہے قد آج مسلمؔ کا
جہاں نہ پہنچا تھاکوئی وہ اب وہاں پہنچا

از ضیا شہزاد شہزادؔ (کراچی)
(نذرانۂِ عقیدت ۔ مسلمؔ سلیم صاحب کے دھار شہر
میں ۳؍ستمبر ۲۰۱۳کو اعزاز پر)
مسلمؔ سلیم آپ کو کرتا ہوں میں سلام
اردو کہ آپ نے کیا مقبولِ خاص وعام

پرچم زبانِ اردو کا تھامے جو پہنچے دھار
ہر لب پہ نامِ اردو رہا صبح اور شاک
۱ﷲ! ایسے لوگوں کہ عمرِ خضر عطا
وہ جن کے دم سے اردو نے پایا عروج و بال

شہزاد آج اردو جو تابندہ، زندہ ہے
’’مسلم‘‘ سے لوگوں نے ہی دلایا ہے یہ مقام


مسلمؔ سلیم اور بھوپال
از نیتجۂِ فکر احمد علی خان احمدؔ (ریاض،سعودی عربیہ)
روح پرور ہر طرف ہے سادگی بھوپال میں
چہروں پر بھی ہے غضب کی تازگی بھوپال میں

لذّتِ اردو کی نا کھلتی کمی بھوپال میں
مثلِ مسلمؔ ہوتا گر ہر آدمی بھوپال میں

آگرا ، دہلی، الہٰ آباد اور شہرِ لکھنؤ
چل کے آئی ہے مجسم شاعری بھوپال میں

کرتے ہیں اپنے بلاگوں سے وہ تشہیرِادب
خدمتِ اردو کی بہتی ہے ندی بھوپال میں
ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا ہے مسلمؔ کا جواب
ہے ادب کی ان کے دم سے روشنی بھوپال میں

خوش نماء و خوش ادا یہ شہر ہے احمدؔ علی
کاش اپنی بھی گذرتی زندگی بھوپال میں

کامل جنیٹوی، چندوسی انڈیا

سچ ہے یہ کاملؔ کہ شہر علم میں
وقت کی آواز ہیں مسلم سلیم

ناصر فیروزآبادی

دوستی کا بھی الگ انداز ہیں مسلم سلیم
ہاں میرے ہمراز اور دم ساز ہیں مسلم سلیم

ضیاء شادانی، مرادآباد

در حقیقت اہل فن کی جاں ہیں مسلم سلیم
خدمت اردو کا ایک اعلان ہیں مسلم سلیم
ندیم اختر ندیم مانگناوی، لندن، انگلینڈ

اردو میں ایک نام ہے مسلم سلیم کا
جدت غزل میں کام ہے مسلم سلیم کا

اسماعیل عثمانی نظرؔ الٰہ آباد یونیورسٹی الٰہ آباد

ایسی کچھ بات ہے مسلمؔ میں کہ لکھتا ہے نظرؔ
ان کے ہرِ شعر نے انسان کو طاقت دی ہے

زرینہ خان،رامپور

آپ کے دل کو خدا نے وہ طہارت دی ہے
سنگ بھی جس سے بکھر جائے وہ طاقت دی ہے












ؔ آمد آمد
(اشاعت۔۲۰۱۰ء)















انتساب


جن سے ہے یہ وجود، زباں ہے، کلا م ہے
ان دو عظیم روحوں کو میرا سلام ہے

















نیند بھی میرے لئے عالمِ بیداری ہے
عالمِ خواب میں بھی شعر کہا کرتا ہوں
میں کوئی آورد کا شاعر نہیں ہوں۔اشعار تومجھ پر وارد ہوتے ہیںیہاں تک کہ کئی اشعار عالمِ خواب میں بھی وارد ہوئے۔۱۹۸۳ کی بات ہے شاستری نگر والی قیام گاہ کی چھت پر سو رہا تھا کہ خواب میں چند اشعار ہوئے۔ صبح اٹھتے ہی یہ اشعار والدہ ماجدہ کو گوش گذار کئے۔فرمایا اچھے ہیں۔میں فوراً ہی کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا اورخواب میں وارد ہوئے اشعار کو صفحہِ قرطاس پر اتار لیا۔ یہ ایک دوغزلہ تھا جس میں’وجود‘ ردیف کے ساتھ چھ اشعار ’ت‘ اور ۴ ’ط‘ قافیہ کے ہیں۔ (دیکھئے دو غزلہ: کہیں سے دیکھو بدلتی نہیں جہاتِ وجود)
نہیں کہتا تو مہینوں برسوں نہیں کہتا اور جب آمد کا ہجوم ہوتا ہے تو گھر ہو یا دفتر، سفر ہو یا حضر اشعار کا ورود ہوتا رہتا ہے۔ کئی غزلیں تو اسکوٹر چلاتے چلاتے وارد ہوئیں اور گھر یا دفتر پہنچ کر انھیں قلمبند کرلیا۔ مہینوں اور کبھی کبھی برسوں کے بعد دس پندرہ دن ایسے آتے ہیں جب لگتا ہے کہ ذہن میں آمد کا کوئی بٹن دب گیا ہو۔ ان دنوں مجھ پروجد کی سی کیفےئت طاری رہتی ہے اور میں جھوم جھوم کر ان نوآوردگان کا استقبال کرتا ہوں۔ جب مجھ ایسے کم علم پر یہ اشعار گہرا تاثر چھوڑتے ہیں، تو میں مطمئن ہو جاتا ہوں کہ اہلِ ذوق حضرات انہیں یقیناًپسند کریں گے۔ سطحی شاعر الفاظ سے خیال تک سفر کی سعی کرتا ہے۔یہ سفر عرفِ عام میں ’آورد‘ کہلاتا ہے جبکہ غیر معمولی شاعر خیال کو لفظی پیکر عطا کرتا ہے۔ ؂
جثۂ ِ تحیر کو لفظ میں جکڑتے ہیں
شعر ہم نہیں کہتے تتلیاں پکڑتے ہیں
اس کوشش میں وہ عام طور سے سطح سے بلند ہو جاتا ہے ہرچند کہ کبھی کبھی نیچے بھی چلا جاتا ہے، لیکن سطح پر ہرگز نہیں رہتا۔وہ غوطہ زن ہوتا ہے۔ کبھی صدف پاتا ہے، کبھی خالی ہاتھ آتا ہے، لیکن وہ بحرِ سخن کے ان ہزاروں شناوروں سے قطعی مختلف ہوتا ہے جو ہندوپاک کے گلی کوچوں میں گھومتے رہتے ہیں۔ زندگی بھر بزعمِ خود شعر گوئی کرتے ہیں۔ ناقدین سے تعارف لکھواتے ہیں۔اخبارات و رسائل میں جوڑ توڑ سے خاطر خواہ تبصرے بھی لکھواتے ہیں۔لیکن انجام کیا ہوتا ہے۔ ان کا ایک شعر بھی کسی کو یاد نہیں ہوتا۔یہی نہیں قاری و سامع سخت کوفت کا شکار ہوکر وقت کی بربادی کا ماتم بھی کرتے ہیں۔در اصل ذہن سے چپک جانے والے شعر ہی کو اچھا شعر مانا جاتا ہے۔
شاعر اور قاری کا یہ رشتہ تب مضبوط ہوتا ہے جب کسی خیال، نظریہ، مشاہدہ وغیرہ پر دونوں کیWavelength مل جائے۔اب میں ٹھہرا آزاد منش۔بہت گھوما، ہر قسم کے معاشرے کا تجربہ کیا، ہر طرح کے’ ادب ‘کا مطالعہ کیا۔کرکٹ سے کافی شغف رہا جو اب بھی رننگ کمنٹری کے جنون کی شکل میں باقی ہے۔ٹی وی پر میچ آرہا ہو تو سب کام بند۔آخری گیند تک میچ دیکھنا گویا کوئی کارِ ثواب ہو۔ اردو، ہندی اور انگریزی میں صحافی کے حیثےئت سے خوب لکھا( اور لوگ کہتے ہیں ) بہت خوب لکھا۔
علی گڑھ سے سیاسیات ، نفسیات اور معاشیات کے ساتھ بی۔اے آنرس کیا تو الٰہ آباد
یونی ورسٹی اس حال میں عربی میں ام۔اے امتیازی نمبروں سے پاس کیا کہ داخلہ سے پہلے ایک بھی گردان یاد نہیں تھی۔ لیکن بھلا ہو پروفیسر علامہ رفیق مرحوم کا جنہوں نے دو ماہ کے اندر اندر ساری گردانیں ازبر کرا دیں اور عربی صرف و نحو کے رموز سے بھی آشنا کرا دیا۔ یہ سب صرف زبانی ہوا کیونکہ وہ نوٹس( notes) دینے کے سخت خلاف تھے۔ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں سے بھی الگ الگ وقت میں وابستہ رہا۔ ذہن کو جہاں سے جو کچھ اچھا لگا اخذ کر لیا اور اپنے خیالات کا ذاتی محل تعمیر کر لیا۔
میرے اشعارمیں تنوع کا یہی سبب ہے۔ اب ایسے متنوع خیالات پر مبنی ایک غزل میں پروئے گئے اشعار پر ہر شخص سے تو wavelength مل نہیں سکتی اس لئے جس شخص کا تجربہ، مشاہدہ ، نظریہ کسی شعر سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے تو اس کا ذہن اسی ایک شعر پر مرتکز ہو جاتاہے اور باقی اشعار اس کے اوپر سے گزر جاتے ہیں۔ میں اس نتیجہ پر اس طرح پہنچا کہ میرے الگ الگ دوستوں اور ملاقاتیوں کو میرے الگ الگ اشعار پسند ہیں۔ اتفاق سے یہ سب گوں ناگوں طبیعتوں اور مزاج کے لوگ ہیں اس لئے قارئین سے میری درخواست ہے کہ جو اچھا لگے اسے موتی سمجھ کر چن لیں اور جو کچھ انہوں نے نظر انداز کر دیا یا کسی وجہ سے ان کے فہم سے بالا ترتھا تو یقیناًوہ کسی دوسرے کے لئے کام کی چیز ہوگی ۔ ۔مسلم سلیم






مسلمؔ سلیم۔ہم جہت شاعر اور نسان
مسلمؔ سلیم ایک ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے۔ایک طرف تو وہ اردو، ہندی اور انگریزی کے نامور صحافی ہیں تو دوسری جانب ایک منفرد اور بہترین شاعرو افسانہ نگار۔میں ان کو ان دنوں سے جانتا اور مانتا ہوں جب وہ ۱۹۸۰ میں روزنامہ آفتاب جدید میں بر سرروزگار ہوئے تھے۔تب وہ ایک انتہائی خوش شکل، ظریف اور لاابالی جوان کی حیثئیت سے زیادہ جانے جاتے تھے۔اس وقت ان کی عمر تقریبًا ۳۰ برس تھی لیکن جیسے ہی وہ کسی موضوع پر بولنا شروع کرتے تھے تو سامع ان کے علم کی گہرائی اور گیرائی، مشاہدے کے تنوع اور تخیل کے اعلیٰ مدارج سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اسوقت تک وہ عربی، اردو، ہندی، فارسی اور انگریزی زبانوں پر اچھی دسترس حاصل کرچکے تھے اور علی گڑھ و الہٰ آباد میں اپنے قیام کے دوران اردو افسانہ اور شاعری کے میدانوں میں نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے۔ ان کی بھوپال آمد سے پہلے سے ہی میں ادبی رسائل کے توسط سے ان سے غائبانہ واقف تھا۔ پہلی ملاقات پر وہ مجھے ایک بیفکرے، اسمارٹ اور کھلنڈرے شخص معلوم ہوئے۔لیکن صرف کچھ ماہ کی رفاقت کے بعد مجھے اندازہ ہواکہ جسے میں ایک چنچل پہاڑی ندی سمجھ رہا تھا وہ تو سمندر کی طرح گہرا تھا۔سن ۲۰۱۰ تک آتے آتے عملی زندگی میں وہ کچھ سنجیدہ اور گم سم سے نظر آنے لگے ہیں جسکا سبب اداسی یا کوئی احساسِ محرومی نہیں بلکہ صوفی ازم کی طرف ان کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ لیکن اشعار میں ان کا وہی شوخ انداز برقرار ہے۔ ان کے بالکل تازہ شعر ؂
اب جو سویا تو یہ کروں گا میں
خواب کے ہونٹ چوم لوں گا میں
سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کے اتنے برسوں میں ان کے انداز بیان میں اور نکھار آیا ہے۔زیرِ نظر مجموعہ میں شامل بیشتر اشعار اردو ادب میں اضافے کی حیثےئت رکھتے ہیں کیونکہ معنیٰ آفرینی، تخیل و دیگر شعری محاسن کے اعتبار سے وہ نادر و یکتا ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ ؂
ترے خلوص کا منکر نہیں ہوں میں لیکن
ذر ا ٹھہر یہ تری آستین میں کیا ہے
کون ہے اس شہر میں مجھ سے زیادہ با خبر
مجھ کو سارے بے وفاؤں کے پتے معلوم ہیں
چہار سمت ہے بس بے حسی کی چٹانیں
مری صدا کو نہ ہو بازگشت کا احساس
وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے
حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑیں تمام
مسلمؔ سلیم کی شاعری کے چند پہلو ایسے ہیں جو انھیں اپنے دور کے نمائندہ شعراء سے ممتاز بناتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ زبان کے تعلق سے وسیع اور بھرپور ہیں۔ ان کے یہاں جس طرح محاوروں کا رچاؤ ہے اسی طرح وہ لفظوں کی شکست وریخت سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ وہ قدیم لفظیات سے تہی دامن نہیں بلکہ نئے لفظی پیکروں کے بھی مزاج داں ہیں۔ اس دعوے کی دلیل میں جو غزل میں پیش کر رہا ہوں اس میں قدیم و جدید روایات کے خوشگوار امتزاج کے ساتھ انفرادی لب و لہجہ، صوتی آہنگ اور عصری آگہی کے اشتراک سے شعری پیکر تراشے گئے ہیں۔ ؂
خاموشی سے ہر رازِ نہاں کھول رہا ہے
وہ صرف تبسم کی زبان بول رہا ہے
وہ زیست کے پیالے میں کہیں زہر نہ بھر دے
کانوں میں جو آواز کا رس گھول رہا ہے
الفت بھی عجب شئے ہے، وہ خاموش ہے لیکن
ا س شوخ کا ہر عضوِ بدن بول رہا ہے
صیاّدو! مبارک ہو، چلو دام بچھاؤ
سینے میں پرندہ کوئی پر تول رہا ہے
الفاظ یہ کس کے ہیں مجھے خوب پتا ہے
یہ آپ نہیں اور کوئی بول رہا ہے
تہذیب کی پوشاک سے جسموں کو سجا کر
بستی میں درندوں کا کوئی غول رہا ہے
جدید شاعری کا جو عنصر مجھے مسلمؔ سلیم کے یہاں سب سے زیادہ نمایاں نظر آیا وہ علامتوں کا استعمال ہے اور ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ اندھیرے میں تیر نہیں چلاتے بلکی موزوں الفاظ سے شعری پیکر تراشتے ہیں جو اسے جامعیت اور وسعت عطا کرتے ہیں ؂
کس دن بساطِ زیست پلٹ جائے کیا خبر
ہر مہرہ اپنے خانے میں نامطمئن سا ہے
موجودہ دور میں اپنے حالات سے عدم اطمئنان ایک عالم گیر مسئلہ ہے جس کا اظہار دیگر شعراء کے یہاں بھی ملتا ہے لیکن ایک شاعر کے بیان اور قوتِ متخیلّہ کی آزمائش وہاں ہوتی ہے جہاں وہ کسی عام بات کواس طرح کہے کہ اس کے کئی پہلو سامنے آجائیں۔ مذکورہ شعر میں بساط، مہرہ اور خانہ یعنی شطرنج سے متعلق باہم مربوط تین علامتوں کا استعمال کر کے ایک طرف شعر کو نئی وسعت عطا کی گئی ہے تو دوسری جانب مصرعہ اولیٰ سے شعر کو ذو معنی اورتہہ دار بنایاگیا ہے۔ علامت کے فنکارانہ استعمال کی دوسری مثٖال یہ شعر ہے ؂
میرے احباب جب آئیں گے ہوا کی زد
پر کچھ یہ معلوم نہیں کون کدھر جائے گا
یہاں صرف ایک لفظ ’ہَوا‘ کی وجہ سے شعر کی زمزیت میں اضافہ ہو گیا ہے اور اس سے مراد آپ حالات کے رخ یا حرص و ہوس کچھ بھی لے سکتے ہیں۔اس شعرمیں ماضی کی تلخ یادوں کی بجائے مستقبل کی تیرگی کا بیان اور انسانی رشتوں کی ناپائیداری کا احساس یکساں طور پر ملتا ہے۔مسلم ؔ سلیم کے اس مجموعے کا بیشتر حصّہ قاری وسامع کو دعوتِ فکردیتا ہے۔ چند اشعار دیکھئے ؂
بچوں کو ہونے دیجئے احساس دھوپ کا ۔۔۔ نشو و نما نہ روکئے سایہ نہ کیجئے
اک ذرا جب ہم اٹھا کر سر چلے ۔۔۔ ہر طرف سے دیر تک پتھرچلے
اپنی تقدیر میں چھوٹا سا ہی گھر لکّھا تھا۔۔۔ وہ کوئی جاگ گیا آؤ چلو سو جائیں
دیو قامت وہ شجر جب تیز آندھی میں گرا۔۔۔ ا پستہ قد جتنے تھے پودے سب قدآور ہو گئے
ان اشعار کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ مسلم سلیم نہ تو قنوطیت کا علمبردار ہے نہ ابتہاجیت کا۔وہ محض زندگی کا شاعر ہے۔اس کے اشعار اس پر ایک تجربے کی صورت میں وارد ہوتے ہیں اور مسلمؔ سلیم ہم کوآج کی اس دنیا کا باشندہ نظرآنے لگتا ہے جہاں محبت ہے، محبوب کا انتظار ہے، اندیشہِ جاں ہے، رشتوں کا انقطاع ہے اور سب سے بڑھ کر انفرادیت و اختراع ہے ؂
ہر باریوں لگا کہ کوئی آئے گا مگر ۔۔۔کچھ دور ہی سے لوٹ گئیں آہٹیں تمام
پہلے مرنے کا کوئی خوف نہیں تھا مجھ کو۔۔۔ تم کو پایا ہے تو اندیشہِ جاں کتناہے
تھے درج ان کتابوں میں اخلاق کس قدر۔۔۔ دیمک کی نذر ہو گئے اوراق کس قدر
ایک شاعر سائنس داں کی طرح ’’نامعلوم‘‘ کو ’’معلوم‘‘ بنانے کا کرتب نہیں دکھاتا بلکہ صرف معلوم سے معلوم تک کا سفر طے کرتا ہے۔مگر جب سے غالبؔ نے شاعری کو معنی آفرینی کا نام دیا ہے، اچھا اور برا ہر شاعر معنی کے پیچھے لگ گیا ہے۔کیسی کیسی دور کی کوڑیاں لائی گئیں لیکن معنی تو کیا ہاتھ آتے شاعری بھی گئی۔مگرمسلمؔ سلیم نے جب یہ کہا ؂
وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے
حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑیں تمام
دروازہ کھولتے ہی عجب سانحہ ہوا
منظر کی آگ سب مرے سینے میں بھر گئی
سمجھوتے کا قائل ہوں ، رہ رہ کے لچکتا ہوں
اتنا نہ جھکا مجھ کو میں ٹوٹ بھی سکتا ہوں
دھوپ میں دیوار بھی تھی کس کو تھا اس کا خیال
استفادہ سایہِ دیوار سے سب نے کیا
تو وہ اپنے انداز، تجزیاتی لب و لہجہ اور ہم عصر زندگی سے قربت کی بناء پر ایک اوریجنل شاعر نظر آئے۔ ان کے یہاں مضامین میں کروٹ کروٹ ، پہلو بہ پہلو مشاہدے کی باتیں رقص کرتی نظر آئیں اور ان کے اندر چھپے ہوئے رنگوں کی وہ چھوٹ نمایاں ہو گئی جو ان کو ایک ممتاز شاعر کا درجہ دیتی ہے۔
۔عارف عزیز








البیلے خیال کا شاعرمسلمؔ سلیم
اگریہ کہا جائے کہ قلی قطب شاہ کے زمانے سے آج تک دنیا کے تقریباً سارے مضامین قلمبند کئے جا چکے ہیں تو کم ہی لوگ اس سے اختلاف کریں گے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر عہد اپنے مسائل و موضوعات لے کر آتا ہے۔سچا فنکار ان موضوعات کو تلاش کرتا ہے اور انھیں باندھتا ہے۔ اس طرح ہر عہد کے ساتھ کچھ فنکار و قلمکار مخصوص ہوتے جاتے ہیں اور یہ سلسہ شاید دنیا کے آخری دن تک جاری رہے گا اور شاعری کا حسن و شباب بھی قائم رہے گا۔
فنونِ لطیفہ کے متعلق ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ جتنے نام یا چہرے آسمانِ فن پرجگما رہے ہوتے ہیں، اس سے کئی زیادہ بہتر فنکار طلوع ہونے کے لئے جھٹپٹا رہے ہوتے ہیں۔اب اس میں قصور کس کا ہے یہ بحث کا موضوع ہو سکتا ہے۔ فی الحال میرا موضوع ہے مسلمؔ سلیم اور انکی شاعری۔
مسلمؔ سلیم جو ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور صرف تعلق نہیں رکھتے بلکہ اپنے اسلاف کی روایت کی پاسداری بھی کر رہے ہیں اور اپنی زندگی کی جدوجہد کے ساتھ علمی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہر چند کہ انھوں نے صحافت کو ذریعہِ معاش بنایا ہے لیکن اس میں بھی علمی وقار کو قائم رکھا ہے۔
مسلمؔ سلیم سے میرا غائبانہ تعارف بہت پہلے سے تھا لیکن باقاعدہ ملاقات ان سے ہندی روزنامہ نَو بھارت اور انگریزی روزنامہ سینٹرل کرانکل کے دفتر میں ہوئی (دونوں اخبارات ایک ہی ادارہ سے شائع ہوتے ہیں)۔میں نے ہندی روزنامہ نو بھارت میں رپورٹر کی حیثئیت سے کام کرنا شروع کیا جبکہ مسلمؔ سلیم صاحب پہلے ہی سے سینٹرل کرانکل میں بیورو چیف کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس حساب سے وہ میرے سینئر بھی ہوئے۔لیکن پہلی ہی ملاقات میں ایک دوست کی طرح پیش آئے اور کہا کہ میں آپ کو جانتا ہوں۔ اس دن سے دوستی کایہ سلسلہ برادرانہ روئیے کے ساتھ جاری ہے۔پھر ایک روز انھوں نے مجھے اپنی شاعری کا مسودّہ اس حکم کے ساتھ دیا کہ تمہیں اس پر کچھ لکھنا ہے جبکہ میری تربیت میں اپنے بڑوں اور سینئروں کوداد دینا نا مناسب بتایا گیا ہے چہ جائے کہ تبصرہ اور تنقید۔ بہرحال لمبے عرصہ تک مسودہ میرے پاس رہا اور گاہے بگاہے ان کے شعر مجھے چونکاتے رہے۔ ان کے تیکھے پن اور بے ساختگی نے مسلمؔ سلیم کے شعری روئیے کو سمجھنے میں میری مدد کی۔ بظاہر وہ اپنے آپ میں گم رہنے والے اور دنیا سے بیزار نظر آتے ہیں لیکن انکا شعر اسکی نفی کرتا ہے۔ وہ جس گہرائی میں گم رہتے ہیں غالباً اُسی سطح سے ایسے اشعار نکال لاتے ہیں ؂
مجھ کو فیشن نے سکھائے ہیں جنوں کے آداب
مجھ کو مجنوں نے سکھایا نہیں عریاں ہونا
مسلمؔ سلیم کے جسم میں ایک ایسی بے چین روح اور فکر مند ذہن پوشیدہ ہے جو انہیں کسی محاذ سے سرسری نہیں گذرنے دیتا اور انہیں نئی علامتیں تخلیق کرنے پر اکساتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؂
روح کے کرب کا کچھ مداوا نہ تھا۔۔۔۔ ڈاکٹر نیند کی گولیاں لکھ گیا
تقدیرکی مجھ سے یونہی تکرار چلے گی
میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی
چمنی سے ابلتی ہے وہ زنجیر دھوئیں کی
آزاد ہوا اب سے گرفتار چلے گی
جیب کی گرمی سے کہتی ہے مری بے چہرگی
جسم کے بازار، چہروں کی دکانوں میں چلیں
دھوپ میں دیوار بھی تھی کس کو تھا اس کا خیال
استفادہ سایہ دیوار سے سب نے کیا
ان اشعار میں ایک ہوش مند فنکار کا اضطراب صاف جھلک رہا ہے۔ زندگی کے تلخ تجربات کو خوبصورت پیکر میں ڈھالا گیا ہے جو سوکھے ہوئے درخت کی اس پینٹنگ کی مانند ہو گئے ہیں جسے دیکھتے ہی ڈرائنگ روم میں سجانے کو جی چاہتا ہے۔ مسلم ؔ سلیم نے صحافی ہونے کا فائدہ تو اٹھایا لیکن تجربات کو شعر بنانے میں شعری حسن کا خاص خیال رکھا ہے
کون ہے اس شہر میں مجھ سے زیادہ با خبر
مجھ کو سارے بے وفاؤں کے پتے معلوم ہیں
تم سے کس نے کہا تھا کہ اتنا ہو ا میں دھواں چھوڑ دو
اب چلو جنگلوں میں رہو مدتوں کے لئے بستیاں چھوڑ دو
اب لباسوں کا کیا ہی کہنا ہے
کچھ نہیں پہنا اور پہنا ہے
شاعر اس وقت کامیاب سمجھا جاتا ہے کہ جب اس کا درد اور محرومی پڑھنے یا سننے والے کو اپنا محسوس ہونے لگے ۔ اس کے اشعار میں اسے اپنی صورت نظر آنے لگے۔ مسلمؔ سلیم کے یہاں ایسے اشعار کافی تعداد میں جنہیں وہ زندگی کے بہت قریب سے اٹھا کر لائے ہیں۔ ؂
اپنی تقدیر میں چھوٹا سے ہی گھر لکھا تھا
وہ کوئی جاگ گیا آؤ چلو سو جائیں
مجھ سے زیا دہ وہ مری پہچان سے ملا
جو آیا میرے گھر مرے سامان سے ملا
رفتہ رفتہ ہم کو جینے کا ہنر آہی گیا
پتھروں میں رہتے رہتے ہم بھی پتھر ہو گئے
مسلمؔ سلیم کے لہجے کی کھنک ان کی اپنی ہے جسمیں ان کے مزاج اور اندازِ فکر کی جھلک نمایاں ہونے کے باوجود انکی آواز غیر مانوس معلوم نہیں ہوتی۔ان سے مل کر جب کسی کو یہ معلوم ہو کہ وہ شعر بھی کہتے ہیں تو پہلے تاثر میں وہ یہ سمجھے گاکہ بہت فلسفیانہ انداز کی شاعری کرتے ہوں گے اور کچھ بھول بھلیوں کی سیر کراتے ہوں گے لیکن شعر سن کر اسکا خیال بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔کیونکہ وہ قاری یا سامع سے آسان طریقے سے بات کرنا جانتے ہیں ؂
میری فطرت میں رچ گیا ہے خلوص
اب مسلسل یہی گناہ سہی
ہم کو لایا ہے تعصب نفرتوں کے دشت میں
ورنہ کب گمراہ انسانوں کو مذہب نے کیا
نیم فاقہ نیم عریانی کو اندر چھوڑ کر
گھر سے باہر جب قدم رکھا سکندر ہو گئے
چھوٹی سی رکاوٹ ہے دیوار نہ مانوں گا
میں ہار نہیں مانا میں ہار نہ مانوں گا
بظاہر آسان لگنے والے یہ اشعار کہنا کتنا مشکل ہے یہ شاعر ہی جانتا ہے، کیوں کہ آسان کہنا مشکل ہوتا ہے اور ذرا سی غفلت شعر کے حسن مجروح کر دیتی ہے۔ مگر سچا شاعر ان مراحل سے بھی پار پا لیتا ہے۔
مسلمؔ سلیم ایک طویل عرصہ سے شاعری کر رہے ہیں۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ہے۔ شعری سفر کا آغاز طالبِ علمی ہی کے زمانے سے ہو چکا تھا اوریونیورسٹی میں ان کے اشعار کی گونج سنی جاتی تھی۔لیکن اسکے باوجود شعری افق پر انکو اپنا مقام حاصل کرنا ہے۔ اسکی وجہ شاید انکی طبیعت کا لا ابالی پن بھی ہے جس کا احساس خود انکو بھی ہے۔
اپنی قسمت میں ہے گردش کیا رکیں
اک ذرا ٹھہریں تو ہر منظر چلے
میرے بھی بخت میں ہے اندھیرا کہ میں بھی ہوں
سمجھے نہ رات خود کو اکیلا کہ میں بھی ہوں
لیکن اس کے باوجود وہ شہرت اور ناموری کی طرف سے شعوری لاپرواہی اخیتار کرتے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ شہرت اور مرتبہ خود حاصل کرنے والی چیزیں نہیں ہیں اس لئے وہ اپنے روئیے سے مطمئن بھی رہتے ہیں اور ابن الوقت لوگوں اور موقع پرستوں کے بارے میں کہتے ہیں ؂
ہمیشہ جیتنے والوں کی صف میں رہناہے
اسی لئے تو وہ پرچم بدلتے رہتے ہیں
نیک نامی کا صلہ گوشہ تنہائی ہے
جس کو شہرت کی تمنا ہو وہ رسوا ہو جائے
یہی ایک سچے فنکار کا رویہ ہے۔ اپنے فن کے بارے میں کہا ہے اور انکی یہ بات ہر ایک شاعر پر صادق آتی ہے کہ ؂
جثۂِ تحیّر کو لفظ میں جکڑتے ہیں۔۔۔ شعر ہم نہیں کہتے تتلیاں پکڑتے ہیں
مسلمؔ سلیم ماضی کی یادوں سے آج بھی اپنے رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ دورانِ گفتگو بھی علی گڑھ کی باتیں کرتے ہیں اور شعر میں بھی ؂
کیمپس کی یادیں سب اپنے ساتھ لاتے ہیں
لوگ جب علی گڑھ سے ہم سے ملنے آتے ہیں
مسلمؔ سلیم کی شاعری میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ زبان کا حسن، خیال کا البیلا پن اور جذبے کا رچاؤ انکے اسلوب کا مظہر ہے۔کچھ اور اشعار ملاحظہ ہوں ؂
میں ایسا اس کے تصور کی راہ میں کھویا ۔۔۔ وہ آگیا تو مرا نتظار کرنے لگا
سائباں ساتھ کس کے چلے ہیں۔۔۔ پھر وہی دھوپ تھی، قافلہ تھا
کچھ دیر رک کے پوچھ گیا میری خیریت۔۔۔ وہ شخص بھی ہے صاحبِ اخلاق کس قدر
اپنی قسمت میں ہے گردش کیا رکیں۔۔۔ ایک ذرا ٹھہریں تو ہر منظر چلے
ایسے اشعار سے آراستہ یہ مجموعہِ کلام جب منظرِ عام پر آئے گا تو یہ قوی امید ہے کہ اہلِ نظر حضرات کو ضرور متوجہ کرے گا اور ان میں سے بیشتر اشعار شائقین کی ڈائریوں اور ذہنوں میں محفوظ ہو جائیں گے۔بات ختم کرنے سے پہلے شاعر کا ایک شعر اسی کی نظر کرتا ہوں ؂
باطن کی ذراآنکھ جو روشن ہو تو پھر ہم
دیکھیں گے وہ چیزیں کہ جو منظر میں نہیں ہیں
۔۔ بدرؔ واسطی، بھوپال








نبّاضِ عصر مسلمؔ سلیم
میں مسلمؔ سلیم سے گذشتہ تیس برسوں سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ ان کا مدّاح بھی ہوں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شاعرو افسانہ نگار کی حیثئیت سے انھوں نے ہمشہ سماج کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھا ہے لیکن ایسا کرتے وقت انھوں نے اعلیٰ شعری و ادبی معیار کو قائم رکھا ہے۔ ان کے اشعار اور افسانوں میں کلاسکس کا رچاؤ ، نفسیات کا عمیق مطالعہ اور گہرا مشاہدہ پایا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر چند اشعار پیش ہیں ؂
ہیں کیا فناء و بقا، جثۂِ اثر سے ڈرو
رہوں گا زندہ مری موت کی خبر سے ڈرو
تمام شہر کے دروازے نیچے نیچے ہیں
بہت بلند نہ ہو جائے اپنے سرسے ڈرو
روح کے کرب کا کچھ مداوا نہ تھا
ڈاکٹر نیند کی گولیاں لکھ گیا
چمنی سے ابلتی ہے وہ زنجیر دھوئیں کی
آزاد ہوا اب سے گرفتار چلے گی
محدود وسعتیں بھی مجھے دے گئیں شکست
صحرا بوجہِ لرزشِ پا بے کراں سے ہے
ٹوٹی ہے گر کے چیز کوئی بارہامگر
سر پر محیط اب بھی وہی آسماں سے ہے
مسلمؔ سلیم نے اپنے نثری و شعری سرمایہ کی بنیاد ان چیزوں پر رکھی ہے جو کسی فنکار کو اپنے عہد کا نمائندہ بنانے کے لئے ناگزیر ہوتی ہیں۔ اچھے فنکار کو اگر تنقیدی شعور بھی ہو تو اس کے فن میں چارچاند لگ جاتے ہیں۔ وہ اس شعور کو الہ آباد سے شایع جریدہ ’اندازے‘ کے ذریعے ثابت کر چکے ہیں جس میں اسد بدایونی کے شعری مجموعہ پر ان کا سیر حاصل تنقیدی مضمون شایع ہوکر دادِ تحسین حاصل کرچکا ہے۔اسی طرح ’روشن‘ کے فانی نمبر میں شایع ان کے مضمون ’فانی۔فن اور زندگی‘ میں فانی بدایونی کے کلام پر نئی روشنی ڈالی گئی ہے۔فانی وہ شاعر ہے جس پر زمانے والوں نے قنوطیت اور رجعت پسندی کی مہر ثبت کر رکھی ہے۔ لیکن مسلمؔ سلیم نے دلائل و تجزیات سے ثابت کیا ہے کہ فانی ایک حقیقت پسند، حوصلہ مند، حساس انسان اور انسان دوست تھے۔ اس مضمون نے فانی کے ارد گرد بنے ہوئے نام نہاد ناقدوں کے تانے بانے کو مسمار کر دیا ہے۔
مسلم سلیم کی شخصیت کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ ان کی ذات بے حد متنوع اور متضاد شعبوں میں منقسم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دوستوں کی تعداد بے شمار ہے جوقطعی مختلف المزاج ہیں اور مزے کی بات ہے کہ ہر دوست مسلمؔ صاحب کی علیٰحدہ علٰیحدہ خصوصیات سے واقف ہوتا ہے اور دیگر خوبیوں کی اسے ہوا بھی نہیں لگتی۔ جہاں تک راقم الحروف کا سوال ہے تو اس نے مسلمؔ سلیم کو تقریباً ہر رنگ میں دیکھا ہے۔ میں مسلمؔ سلیم کے جس قدر نزدیک آیا ہوں اسی قدر ان کی غیر معمولی ذہانت اور علمیت کا معترف ہوتا گیا ہوں۔ انھیں انگریزی، عربی، فارسی، اردو اور ہندی پر دسترس ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بے پناہ تخلیقی اور تنقیدی شعور کا حامل ہونا کوئی معمولی کارنامہ نہیں کہا جاسکتا۔ آئیے مسلمؔ سلیم کو ان کے منتخب اشعار کی روشنی میں دیکھا جائے۔ ؂
ترے خلوص کا منکر نہیں ہوں میں لیکن۔۔۔ ذرا ٹھہر یہ تری آستین میں کیا ہے
وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے۔۔۔ حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑیں تمام
دیو قامت وہ شجر جب تیز آندھی میں گرا۔۔۔ پستہ قد جتنے تھے پودے سب قد آور ہو گئے
میں بازار سے کافی پردے لایا ہوں۔ ۔۔ اب دیکھوں کیسے رسوائی ہوتی ہے
دھوپ میں دیوار بھی تھی کس کو تھا اس کا خیال۔۔۔ استفادہ سایہِ دیوار سے سب نے کیا
کس دن بساطِ زیست پلٹ جائے کیا خبر۔۔۔ ہر مہرہ اپنے خانے میں نا مطمئن سا ہے
یہ تھام لیتا ہے امکانِ فتحِ نو کے قدم ۔۔۔ شکست سے بھی برا ہے شکست کا احساس
اک ذرا کیا تھکے مرے بازو
حوصلے بڑھ گئے سمندر کے!
یہ اسی چیخ اچانک بتا گئی ورنہ
نہیں تھا مجھ کو خود اپنی گرفت کا احساس
نہیں معلوم مجھ کو اس کی منزل
ہزاروں میل تک وہ ہم سفر ہے
مندرجہ بالا اشعار کی تشریح کئی کئی صفحات میں کی جاسکتی ہے جو فی الحال جگہ کی قلّت کے سبب ممکن نہیں۔ میری دعا ہے کہ مسلمؔ سلیم اسی طرح اردو زبان و ادب کو نوازتے رہیں۔وہ چاہتے تو دیگر زبانوں میں بھی اپنی ذات کا اظہار کر سکتے تھے مگر اردو کی یہ خوش نصیبی ہے کہ ان کو اس سے والہانہ محبت ہے
۔۔نذیر احمد سامیؔ ، الہ آباد






اﷲ





حمد

توہی تو ہر کہیں سبحٰن اﷲ
کوئی تجھ سا نہیں سبحٰن اﷲ

تو ہی تحت الثریٰ میں جلوہ فگن
تو ہی عرشِ بریں سبحٰن اﷲ

کرتے ہیں رات دن تری تسبیح
آسمان و زمیں سبحٰن اﷲ

جب بھی دل سے کیا تجھے سجدہ
بول اٹھی یہ جبیں سبحٰن اﷲ


نعت
شکلِ نبی میں نور اتارا مولا نے
یوں انساں کا بخت سنوارا مولا نے

اس سے بڑھ کو فرطِ محبت کیا ہوگی
نام کبھی لے کر نہ پکارا مولا نے

نا گہنائے نہ ڈوبے ایسے سورج سے
ختم کیا جگ کا اندھیارا مولا نے

آقا ہم سے رب کہتا ہے ہم بھی جپیں
جیسے جپا ہے نام تمہارا مولا نے

ان پر خود قرآن بھی واری جاتا ہے
وہ جن پر قرآن اتارا مولا نے

سدرہ پار نبی ﷺ نے دیکھا مولا کو
یا پھر ان کا کیا نظارا مولا نے
اس کو لگایا اپنے یار کی مدحت پر
خوب دیا مسلمؔ کو سہارا مولا نے








سرورِکونینؐ
فرش تا عرش یہ انعام بھلا کیا کم ہے
میں غلامِ شہِ بطحٰی ہوں مجھے کیا غم ہے














حضرت علیؑ
قربِ نبیؐ کا ذکر ہی کیا ہے
وہ تو خود تھے نفسِ نبیؐ
ان کا یہ رتبہ ہے مسلمؔ
ان سے نبی کی نسل چلی

اے مردانِ حق و صداقت
قریہ قریہ گلی گلی
زور سے بولو علی علی اور
جھوم کے بولو علی علی

ان کا چشم و چراغ جہاں میں
سب سے بڑا سردار ہوا
میں نے علی کا دامن تھاما
میرا بیڑا پار ہوا


ان کے علم کی ایک کرن سے
ذہن مرا بیدار ہوا
ان کی تیغِ دو دم کے صدقے
میرا قلم تلوار ہوا


پہلے میں در در بھٹکا تھا
اور ذلیل و خوار ہوا
ان کا خادم بنا ہوں جب سے
میں بھی عزت دار ہوا


نذرِ بھوپال
کیسے یہ کہوں دیکھ لیا ہے بھوپال
فطرت کی قسم روز نیا ہے بھوپال
قدرت نے چٹانوں کے ہرے کاغذ پر
تالابوں کے پانی سے لکھا ہے بھوپال
اس وقت سے تاریخ کا آنگن مہکا
اوراق پہ جس دن سے کھلا ہے بھوپال
ہر وقت ہے مصروفِ غنا اس کی ہوا
شاید کسی مطرب کی نوا ہے بھوپال
پایا ہے بہت اس کے مناظر میں سحر
جانا کہ بہت ہوش ربا ہے بھوپال
برسوں سے ہے گہوارہِ تعلیم یہ شہر
سر چشمہِ انوار و ضیا ہے بھوپال
مسلمؔ کو ملا دشت نوردی کا صلہ
قدرت نے اسے بخش دیا ہے بھوپال





اب جو سویا تو یہ کروں گا میں
خواب کے ہونٹ چوم لوں گا میں

بزم میں سچ بھی میں نے بولا ہے
زہر کا جام بھی پیوں گا میں

اے مجھے موت دینے والے سن
تو ہی مر جائے گا جیوں گا میں

یہ مرے دوست کی نشانی ہے
چاک دامن بھلا سیوں گا میں

مجھ پہ بس میری حکمرانی ہے
یوں جیا ہوں یونہی جیوں گا میں





جب بھی جذبوں کے لئے الفاظ نشتر ہو گئے
کیسے کیسے پھول جیسے ہاتھ خنجر ہو گئے

دیو قامت وہ شجر جب تیز آندھی میں گرا
پستہ قد جتنے تھے پودے سب قدآور ہو گئے

رفتہ رفتہ ہم کو جینے کا ہنر آ ہی گیا
پتھروں میں رہتے رہتے ہم بھی پتھر ہو گئے

آ پڑے جس دن سے ہم دریائے جد و جہد میں
اس طرح سے جاں پہ بن آئی شناور ہو گئے

نیم فاقہ نیم عریانی کو اندر چھوڑ کر
گھر سے باہر جب قدم رکھا سکندر ہو گئے

پیکرِ ترغیب تھے سارے کھلونے دور سے
چھو لیا ہم نے تو سب یکلخت پتھر ہو گئے
عالمِ تخئیل میں مسلمؔ ہوا کس کا گذر
میری یادوں کے کئی لمحے معطر ہو گئے

جب ہم نے زندگی کی گنیں راحتیں تمام
لمحات میں سمٹ سی گئیں مدتیں تمام
وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے
حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑیں تمام
ہربار یوں لگا کہ کوئی آئے گا مگر
کچھ دور ہی سے لوٹ گئیں آہٹیں تمام
میں اور احتجاج کی ہمت، نہیں نہیں!
بے اختیار چیخ پڑی ہیں رگیں تمام
وہ خود یہ چاہتا تھا یہ محسوس تب ہوا
ہم بے خودی میں توڑ گئے جب حدیں تمام

آثارِ کرب سب سے چھپاتا پھرا مگر
بستر پہ نقش ہو ہی گئیں کروٹیں تمام

سوچ رہا ہوگا شاید جڑ پائے گا یہ دوبارہ کیا
بچہ چپ چپ کیوں بیٹھا ہے پھوٹ گیا غبارہ کیا

دوب کے اوپر ایسے ہی بیٹھو گے لبِ فوارہ کیا
پارک یہ تم سے پوچھ رہا ہے آؤگے پھر دوبارہ کیا

سب اس کی رفتار سے ہارے طائر کیا طیارہ کیا
ہم کو تری ای میل سلامت قاصد کیا ہرکارہ کیا

ڈال کبھی اس کافر کے اوپر بھی دہشت کا سایہ
انسانوں کو مارنے والے تو نے دل کو مارا کیا

مات ہے ہر معیارِ تغیر اس کے تلون کے آگے
دیکھنا ہے تو اس کو دیکھو دیکھ رہے ہو پارہ کیا
پہنچے پیر نظیرؔ کی ہم کو یاد آئی اک منظر پر
رہ گیا ٹھاٹ پڑا سب کا سب لاد چلا بنجارا کیا

خود کو شاعر کہتے بچے گھوم رہے ہیں گلی گلی
شاعر گھر میں قید پڑا ہے اور کرے بیچارہ کیا

کتنی دیر سجے گی محفل کب تک یہ رقص و نغمہ
گھر ہی لوٹ کے جائیں گے سب اور بھلا پھر چارہ کیا

سب ہیں مظاہر عشق کے مسلمؔ کعبہ، اقصیٰ، تاج محل
پیار نہ ہو تو سب پتھر ہیں مرمر اسود خارا کیا






زندگی کس قدر ہے گراں لکھ گیا
وقت چہروں پہ مایوسیاں لکھ گیا

روح کے کرب کا کچھ مداوا نہ تھا
ڈاکٹر نیند کی گولیاں لکھ گیا

سر درختوں کے کس نے قلم کر دئے
شہر میں دور تک بستیاں لکھ گیا

بے تعلق تھا اس کا تبسم مگر
میرے سارے غموں پر خزاں لکھ گیا

دورِ حاضر مرے جسم کے بخت میں
مختلف رنگ پرچھائیاں لکھ گیا

ہر رگِ تن پہ بس اک تبسم ترا
دم بدم کوندتی بجلیاں لکھ گیا
کتنے در میری آہٹ کے تھے منتظر
کیوں جبیں پر بس اک آستاں لکھ گیا


غزل
زندگی کی طرح بکھر جائیں
کیوں ہم ایسے جئیں کہ مر جائیں

کر دی میراث وارثوں کے سپرد
زندگی کس کے نام کر جائیں

گھر کی لپٹیں بہت غنیمت ہیں
ہر طرف آگ ہے کدھر جائیں

موڑ لگنے لگے ہر اک منزل
اور ہر موڑ سے گذر جائیں

دب گیا ہوں میں جن میں تہہ در تہہ
یہ جو پرتیں ہیں سب اتر جائیں





ہم پھول گلستاں میں چنیں ، خار کھائیں سب
دیکھیں جب ان کی سمت تو نظریں چراےءں سب

کوئی پلٹ کے آتی نہیں، گونجتی نہیں
چٹانیں پی رہی ہیں ہماری صدائیں سب

کیا دینا چاہتا ہے فقط حشر میں صلہ
کیوں جمع کر رہا ہے ہماری دعائیں سب

مردہ ضمیر زندہ ہیں مصنوعی سانس پر
لاشیں سی چل رہی ہیں میرے دائیں بائیں سب

اب کچھ بھی فرقِ مغرب و مشرق میں نہیں رہا
زہریلی ہو چکی ہیں جہاں کی ہوائیں سب





مرے بدن میں نہ جانے کیا شئے سما گئی تھی
جب اتفاقاً قریب پل بھر وہ آ گئی تھی

بہت مہذب بہت ہی خاموش طبع تھا میں
وہ پھر اکیلے میں کس لئے تلملا گئی تھی

نہ میں حسین تھا، نہ خوش ادا تھا نہ خوش گلو تھا
مگر مری بے بسی دل اس کا لبھا گئی تھی

سوال جب بھی کیا مری وسعتِ نظر نے
وہ مسکراہٹ میں اپنا ماضی دبا گئی تھی

غضب کی ناداں تھی وہ کہ سوچا نہ کچھ بھی اس نے
خوشی خوشی وہ فریبِ تہذیب کھا گئی تھی






نیند ٹوٹے نہ خضر ہی کی نہ رہبر جاگے
مجھ میں سویا ہوا انساں جو گھڑی بھر جاگے

تھی کڑی دھوپ تو کب ان کو پریشانی تھی
برف پگھلی تو بہت چونک کے پتھر جاگے

پر سکوں دن ہے کوئی شور نہیں چیخ نہیں
رات ہولے تو گناہوں کا سمندر جاگے

کوئی فتنہ، کوئی شورش، کوئی ہنگامہ ہو
مجھ کو تڑپائے مرے جسم کے اندر جاگے

لوگ ٹکرا کے حقیقت سے ہراساں یوں ہیں
جس طرح طفل کوئی خواب سے ڈر کر جاگے







وہ راہیں جن سے ابھی تک نہیں گذر میرا
لگا ہوا ہے انھیں راستوں کو ڈر میرا

نہ جانے کون تھا جس نے مجھے بچایا ہے
مجھے خبر بھی نہ تھی جل رہا تھا گھر میرا

نہیں ہے بوجھ مرے نام پر مناصب کا
میں آدمی ہوں تعارف ہے مختصر میرا

گنوا کے ذات کو لایا ہوں زندگی کی خبر
مری سنو کہ حوالہ ہے معتبر میرا

بھٹک رہا ہوں ابھی زندگی کے صحرا میں
خبر نہیں کہ کہاں ختم ہو سفر میرا





شعلوں میں گھرے سب ہیں شراروں میں کھڑے ہیں
اوروں کی طرح ہم بھی حصاروں میں کھڑے ہیں

دیکھو گے کسی دن کہ سواروں میں کھڑے ہیں
کچھ لوگ سر راہ غباروں میں کھڑے ہیں

ہر سمت سے محصور خساروں میں کھڑے ہیں
بس اتنا سکوں ہے کہ سہاروں میں کھڑے ہیں

آزادی نے بخشی ہے غلامی کو وہ عظمت
بکنے کے لئے لوگ قطاروں میں کھڑے ہیں

وہ آنکھیں اور ان آنکھوں میں تصویر ہماری
لگتا ہے کہیں دور ستاروں میں کھڑے ہیں

نزدیک اگر تم ہو تو کیسا بھی ہو موسم
محسوس یہ ہوتا ہے بہاروں میں کھڑے ہیں
یکتائی کا دعویٰ نہیں مسلمؔ ہمیں پھر بھی
پہچان لئے اپنی ہزاروں میں کھڑے ہیں




یہ دعا ہے کہ کہیں ہوش و خرد کھو جائیں
دیکھیں کیا ہوتا ہے دیوانے اگر ہو جائیں

ایک ہی کام خوش اسلوبی سے پائے انجام
اب جو صحراؤں میں بھٹکیں تو وہیں کھو جائیں

اپنی تقدیر میں چھوٹا ہی سا گھر لکھا تھا
وہ کوئی جاگ گیا آؤ چلو سو جائیں












اس کو کافی نہ سمجھئے کہ اندھیرا ہو جائے
اور کچھ دیر ٹھہرئے کہ یہ گہرا ہو جائے

ایک ہی رات میں اس کے لئے کیا کیا ہو جائے
شمع گھر کی کسی محفل کا اجالا ہو جائے

شب کو دیوار پہ لٹکا دے حیا کی چادر
دن میں ہنس دے جو کوئی شرم سے دوہرا ہو جائے

نیک نامی کا صلہ گوشۂ تنہائی ہے
جس کو شہرت کی تمنا ہو وہ رسوا ہو جائے

قطرے آپس میں کہاں ملتے ہیں دیکھا تو نہیں
ہاں یہ سنتے ہیں کہ مل جائیں تو دریا ہو جائے






کج اداؤں، دل رباؤں کے پتے معلوم ہیں
جسم سے اٹھتی صداؤں کے پتے معلوم ہیں

کون ہے اس شہر میں مجھ سے زیادہ با خبر
مجھ کو سارے بے وفاؤں کے پتے معلوم ہیں

سیکھ ہی پائے نہیں ہم سر جھکانے کا ہنر
ورنہ سب باطل خداؤں کے پتے معلوم ہیں

لو کے جھونکے کس طرف سے آ کے برساتے ہیں آگ
مصلحت کو ان ہواؤں کے پتے معلوم ہیں

عیش دنیا میں کریں گے وہ بھی مسلمؔ کی طرح
وہ جنھیں ماں کی دعاؤں کے پتے معلوم ہیں






فتنہ و شر سے سدا خود کو بچائے رکھئے
روٹھنے والوں کو پہلے سے منائے رکھئے

بولئے جھوٹ سراسر مگر اتنا کیجے
دھوپ کے چشمے سے آنکھوں کو چھپائے رکھئے

وہ بھی عاشق ہی تو ہے کام کبھی آئے گا
دل نہیں دیتے نہ دیں دوست بنائے رکھئے

کیجئے چڑھتے اترتے ہوئے سورج کا خیال
ہے بدن ایک مگر سینکڑوں سائے رکھئے

دل کہاں جنسِ گراں مایہ کہ سودا کیجے
جسم ہے گرمیِ بازار سجائے رکھئے





کچھ تو لازم ہے مری زیست کا عنواں ہونا
راس آئے مجھے خوابوں کا پریشاں ہونا

مجھ کو فیشن نے سکھائے ہیں جنوں کے آداب
مجھ کو مجنوں نے سکھایا نہیں عریاں ہونا

عیش کے دن مجھے ہرگز نہ بدل پائیں گے
یاد رہتا ہے مجھے بے سروساماں ہونا

وہ ہے کمزور تو کیا اس کو قوی کے آگے
جرم نا کردہ پہ آتا ہے پشیماں ہونا

لذتِ خوفِ خطاکاری کا سر چشمہ تھا
اولیں وصل پہ وہ تیرا ہراساں ہونا







کس قدر بے دست و پا راکب کو مرکب نے کیا
خود سے بھی بے گانہ حرصِ جاہ و منصب نے کیا

ہم کو لایا ہے تعصب نفرتوں کے دشت میں
ورنہ کب گمراہ انسانوں کو مذہب نے کیا

جب بھی شہرِ مصلحت میں وا کیا دستِ طلب
اک عجب انکار سا اقرار سے سب نے کیا

محفلِ ادراک میں توڑا سکوتِ بے حسی
جرم کتنا خوب صورت جنبشِ لب نے کیا

دھوپ میں دیوار بھی تھی کس کو تھا اس کا خیال
استفادہ سایہ دیوار سے سب نے کیا





ہیں کیا بقا ؤ فنا جثہِ اثر سے ڈرو
رہوں گا زندہ مری موت کی خبر سے ڈرو

جہاں میں باعثِ خوف و ہراس اے لوگو
مگر یہ فرض ہے تم پر کہ اپنے گھر سے ڈرو

اٹھو کہ لرزہ بر اندام ہے فضا ساری
نقیبِ شورشِ فردا ہے یہ سحر سے ڈرو

تمام شہر کے دروازے نیچے نیچے ہیں
بہت بلند نہ ہو جائے اپنے سر سے ڈرو









فلک پہ کون سی شئے ہے زمین میں کیا ہے
نظر نہیں تو تری خورد بین میں کیا ہے

ترے خلوص کا منکر نہیں ہوں میں لیکن
ذرا ٹھہر یہ تری آستین میں کیا ہے

نہ ساز چیز ہے کوئی نہ کوئی شئے دھن ہے
وہ دردِ دل ہے سپیرے کی بین میں کیا ہے

تمام عمر جہنم میں کیوں گذاریں ہم
سوائے حسن و ادا اس حسین میں کیا ہے

خبر بھی کچھ ہے کہ احساس اسمِ آدم ہے
جو دل نہیں ہے تو پھر اس مشین میں کیا






ہوئی جو شام راستے گھروں کہ سمت چل پڑے
ہمیں مگر یہ کیا ہوا یہ ہم کدھر نکل پڑے

کسی کی آرزؤں کی وہ سرد لاش ہی سہی
کسی طرح تو جسم کی حرارتوں کو کل پڑے

اسی کی غفلتوں پہ میری عظمتیں ہیں منحصر
خدا نہ خواستہ کہ اس کی نیند میں خلل پڑے

سفر طویل تھا مگر گھٹا اٹھی امید کی
کڑی تھی دھوپ دیکھیں کس پہ سایہ اجل پڑے









اک ذرا جب ہم اٹھا کر سر چلے
ہر طرف سے دیر تک پتھر چلے

اپنی قسمت میں ہے گردش کیا رکیں
ہم اگر ٹھہریں تو ہر منظر چلے

رات کے ساتھی کو اب رخصت کرو
کچھ اسے بخشو کہ اس کا گھر چلے

تیزگامی ٹھوکریں کھلوائے گی
اس سے یہ کہئے کہ رک رک کر چلے

جی اٹھوں پھر سے کسی کی آرزو
خون بن کر جسم کے اندر چلے





زندگی کے لبوں پہ آہ سہی
کیوں ہنسے موت میں تباہ سہی

وصل حالآنکہ مرگِ الفت ہے
اک ملاقات گاہ گاہ سہی

جانے کس وقت کام پڑ جائے
اس سے تھوڑی سی رسم و راہ سہی

میری فطرت میں رچ گیا ہے خلوص
اب مسلسل یہی گناہ سہی

کون رشتوں کو توڑ پایا ہے
ایک مکروہ سے نباہ سہی

بحر و بر اب بھی تجھ پہ ہنستے ہیں
آسماں پر تری نگاہ سہی



کچھ تو لازم ہے مری زیست کا عنواں ہونا
راس آئے مجھے خوابوں کا پریشاں ہونا

مجھ کو فیشن نے سکھائے ہیں جنوں کے آداب
مجھ کو مجنوں نے سکھایا نہیں عریاں ہونا

عیش کے دن مجھے ہرگز نہ بدل پائیں گے
یاد رہتا ہے مجھے بے سروساماں ہونا

وہ ہے کمزور تو کیا اس کو قوی کے آگے
جرم نا کردہ پہ آتا ہے پشیماں ہونا

لذتِ خوفِ خطاکاری کا سر چشمہ تھا
اولیں وصل پہ وہ تیرا ہراساں ہونا






سرخرو صرف لمحہ کھڑا تھا
ہر بدن جب شکستہ پڑا تھا

تھک چکے تھے عقائد کے غازی
صرف پرچم ہی لہرا رہا تھا

آؤ اچھا تماشا رہے گا
دور سے شور سا اک اٹھا تھا

سج گئی بزمِ انجم یکایک
منتشر ایک نقطہ ہوا تھا

لوٹ آیا ہوں اے ارتقا میں
پھر وہیں پر جہاں سے چلا تھا

سائباں ساتھ کس کے چلے ہیں
پھر وہی دھوپ تھی قافلہ تھا


تھا جہاں انسان انساں ان ٹھکانوں میں چلیں
اے نئی تہذیب آ پچھلے زمانوں میں چلیں

ہیں ہمارے جاگتے لمحوں پہ حاوی پستیاں
آنکھ لگ جائے تو پھر ہم آسمانوں میں چلیں

پھیلتی ہی جاتی ہے ناکامیوں کی تیز دھوپ
آئیے خوش فہمیوں کے سائبانوں میں چلیں

چل کہ چٹانوں سے سیکھیں زندگی کے کچھ ہنر
آ مری جینے کی خواہش سخت جانوں میں چلیں

شیر کو تہذیب کی سازش سے کرنا ہے شکار
بزدلی تسلیم ہے ہم کو مچانوں میں چلیں

جیب کی گرمی سے کہتی ہے مری بے چہرگی
جسم کے بازار، چہروں کی دوکانوں میں چلیں



کیا کم ہے یہ کہ لمحہِ بیم و رجا ہیں ہم
ویرانیوں کے شہر میں آوازِ پا ہیں ہم

پانی ہیں بلبلہ ہیں برستی گھٹا ہیں ہم
دریا ہیں آبِ جو ہیں سمندر ہیں کیا ہیں ہم

اے لشکرِ غنیم ٹھہر جا کہ جیت لیں
وہ جنگ جس میں خود سے نبرد آزما ہیں ہم

رشتوں کی استواری میں لازم ہے احتیاط
اس کو خبر نہیں ہے کہ اس سے خفا ہیں ہم

پینے لگا ہمیں بھی بہت پھونک پھونک کر
وہ دودھ کا جلا تھا نہ سمجھا کہ کیا ہیں ہم

اک چیخ اک کراہ اک ہنگامہ ہی سہی
سناٹے مصلحت کے ہیں لرزاں، صدا ہیں ہم
بکنا پڑے گا تجھ کو ہمارے حصول میں
ہم کو خریدتا ہے تو سن بے بہا ہیں ہم

اشخاص ہیں ارواح مرے گھر میں نہیں ہیں
لمحاتِ سکوں پھر بھی مقدر میں نہیں ہیں

باطن کی ذرا آنکھ جو روشن ہو تو پھر
دیکھیں گے وہ چیزیں کہ جو منظر میں نہیں ہیں

سوزش ہے محبت کی نہ جذبوں کی حرارت
پوشیدہ شرارے کسی پتھر میں نہیں ہیں

ہم سر سے کفن باندھے ہوئے پھرتے ہیں لیکن
جاں لینے کو انداز ستم گر میں نہیں ہیں

پیتا ہوں تو کچھ اور بھی ہوتا ہے فزوں غم
خوشیوں کے خزانے مرے ساغر میں نہیں ہیں






حساس دل تھا تابِ نظارہ بکھر گئی
پھیلی ہوئی تھی پیاس جہاں تک نظر گئی

دروازہ کھولتے ہی عجب سانحہ ہوا
منظر کی آگ سب مرے سینے میں بھر گئی

زندہ ہوں اب بھی گر ہے تنفس کا نام زیست
سینے میں کوئی چیز جو زندہ تھی مر گئی

اب کس کی جستجو میں زمانہ ہے غوطہ زن
پاتال میں خلوص کی کشتی اتر گئی









تھے درج ان کتابوں میں اخلاق کس قدر
دیمک کی نذر ہوگئے اوراق کس قدر

تھا انتظام میری تباہی کا ورنہ اب
ٹھہری ہوئی ہے گردشِ آفاق کس قدر

پوچھا تو اس نے حال سر راہ ہی سہی
وہ شخص بھی ہے صاحب اخلاق کس قدر

جب تک ہے سانس سینے میں تب تک یہ زندگی
خود زہر بھی ہے خود ہی ہے تریاق کس قدر

جب بھی ہوائے تیز چلی تیرے نام کی
لرزے کتابِ دل کے ہیں اوراق کس قدر

رکھے ہیں اس نے نام ہزاروں فریب کے
یہ فطرتِ بشر بھی ہے خلّاق کس قدر




وہ سمجھتا تھا ہار جاؤں گا
کیا خبر تھی کہ مار جاؤں گا

رہ میں ہونے دو خار، جاؤں گا
ایک کیا بار بار جاؤں گا

یاد رکھ تو بھی ساتھ جائے گا
میں اگر سوئے دار جاؤں گا

ایک شب تیرے خواب میں آکر
تیری زلفیں سنوار جاؤں گا

تو نہ ہوگا تو تیرے کوچے میں
نام تیرا پکار جاؤں گا

مل تو جا ایک بار، بوسوں کے
سارے قرضے اتار جاؤں گا



رنج و غم کی یورشیں ہوتی ہیں جب ہنستے ہیں ہم
سب سمجھتے ہیں کہ یونہی بے سبب ہنستے ہیں ہم

ہیں سبھی سنجیدگی سے سازشوں میں منہمک
دیکھ کر ایسی فضائے بوالعجب ہنستے ہیں ہم

بے بسی اخلاق کے پتھر پہ سر پٹکے تو کیا
دل ہوا ہے مدفنِ غیض و غضب ہنستے ہیں ہم

کیا ہے تحریکِ تبسم پوچھتے رہتے ہیں سب
تیرے دم سے اے تمنائے طرب ہنستے ہیں ہم

توڑ کر دیوارِ آہن غم کی پل بھر کے لئے
جب خوشی دل میں لگاتی ہے نقب ہنستے ہیں ہم

ہم بھی پرتوَ ہیں اسی کے جس کی وہ تصویر ہے
پوچھتا ہے جب کوئی نام و نسب ہنستے ہیں ہم




کب بھلا ان کی سرزنش کی ہے
ہم نے زخموں کی پرورش کی ہے

لہلاتی ہے غم کی پھلواری
آبیاری روش روش کی ہے

قرب سے اسکے ذہن کی حالت
ہو بہ ہو آبِ مرتعش کی ہے

وہ تو مل بھی گیا مگر دل میں
سرسراہٹ یہ کس خلش کی ہے

بجھ گیا گر شرار الفت کا
پھر یہ جاں کاہی یہ کس تپش کی ہے





مجھ کو کہاں گمان گذرتا کہ میں بھی ہوں
دیکھا تمہیں تو میں نے یہ جانا کہ میں بھی ہوں

میرے بھی بخت میں ہے اندھیرا کہ میں بھی ہوں
سمجھے نہ رات خود کو اکیلا کہ میں بھی ہوں

گھر تو بہا کے لے گیا خاشاک کی طرح
دریا نہ چھوڑ مجھ کو اکیلا کہ میں بھی ہوں

اے کاش چیختا، اسے آتا تو میں نظر
اس ’’صاحبِ نظر‘‘ نے نہ دیکھا کہ میں بھی ہوں

میں اپنی دھن میں کتنی بلندی پہ آگیا
کوئی نہیں ہے دیکھنے والا کہ میں بھی ہوں








وقت نے کیسی کروٹ لی ہے سر والے سنگسار ہوئے
سر ہی نہیں تھا شانوں پہ جنکے پھر وہ سب سردار ہوئے

جتنے جواں تھے انکے ارماں اتنے ہی انکار ہوئے
جب یہ سیاست حسن کی سمجھے عشق سے ہم سرشار ہوئے

چلئے اب تحقیق ہی کر لیں مدت گذری وار ہوئے
پشت پہ خنجر کس نے مارا کیا اپنے غدار ہوئے

ڈال ہی لو تم آج کی شب سے وعدہ نبھانے کی عادت
جاگ اٹھا ہے رات کا جادو غافل پہریدار ہوئے








تم سے کس نے کہا تھا کہ اتنا ہوا میں دھواں چھوڑدو
اب چلو جنگلوں میں رہو مدتوں کیلئے بستیاں چھوڑ دو

سینہِ بحر پر اپنی جولانیوں کے نشاں چھوڑ دو
لاکھ طوفان سہی بادباں کھول دو کشتیاں چھوڑ دو

میرے ہمدرد، محسن انہیں تم یونہی خونچکاں چھوڑ دو
اسکی تصویر مجھ کو بنا لینے دو انگلیاں چھوڑ دو

کیسا آزاد ہوں سہہ تو سکتا ہوں میں بول سکتا نہیں
قید کر لو مجھے میرا سب چھین لو بس زباں چھوڑ دو







رکا تو میری رگِ جاں پہ وار کرنے لگا
لہو لہو مجھے دل کا غبار کرنے لگا

پتہ چلا کہ بہت ہو چکا ہوں دولت مند
میں دل کے زخموں کو جب سے شمار کرنے لگا

میں ایسا اس کے تصور کی راہ میں کھویا
وہ آ گیا تو مرا انتظار کرنے لگا

کبھی تو اترے گا سر سے یہ زندگی کا نشہ
شراب پی کے میں ردِّ خمار کرنے لگا

اسی گھڑی کا ہی تھا انتظار قاتل کو
وہی گھڑی کہ میں جب اعتبار کرنے لگا

نہیں گلوں پہ، جڑوں پر نظر ہے اب اسکی
وہ اب ارادۂ قتلِ بہار کرنے لگا
جب اس نے کچھ نہ کہا میری بدکلامی پر
مرا ضمیر مجھے شرمسار کرنے لگا




یقیں آیا کہ دنیا مختصر ہے
جہاں جاتا ہوں میں میرا ہی گھر ہے

خدایا دل کو بینائی عطا کر
نظر کی راہ میں حدِّ نظر ہے

نہیں معلوم مجھ کو اس کی منزل
ہزاروں میل تک وہ ہم سفر ہے

دیا ہے اس نے پھر آنے کا دھوکہ
ہمارے پاس پھر اک رات بھر ہے








اس لئے زندگی سے برہم ہے
آرزوئیں بلند قد کم ہے

میں اگر مٹ گیا تو کیا غم ہے
زندگی تیری آنکھ کیوں نم ہے

وقت ہی گھاؤ بھی لگاتا ہے
وقت کے ہاتھ ہی میں مرہم ہے

منتظر ہوں ترے اشارے کا
عشق کم ہے نہ حوصلہ کم ہے

کیوں دراریں دلوں میں پڑتی ہیں
یا الٰہی یہ کیسا موسم ہے






ُُُجثہۂِ تحیر کو لفظ میں جکڑتے ہیں
شعر ہم نہیں کہتے تتلیاں پکڑتے ہیں

کیوں ہمارے قبضے میں کوئی جن نہیں آتا
اس چراغِ ہستی کو ہم بھی تو رگڑتے ہیں

برقرارئِ ظاہر کتنا خوں رلاتی ہے
اپنے جسم کے اندر ہم کسی سے لڑتے ہیں

قابلِ عبور اتنی ہے بدن کی صف بندی
تیر جتنے چلتے ہیں روح ہی میں گڑتے ہیں









شنید و دید کی کایا کا دھوکا ٹوٹ جاتا ہے
وہ دن جس روز یہ مٹی کا منڈوا ٹوٹ جاتا ہے

بہت پہلے سے ہو جاتا ہے احساسِ فنا اس کو
دہانے پر جب آتا ہے تو دریا ٹوٹ جاتا

ہماری سمت آتا ہے بہت شدت سے وہ اکثر
مگر ٹکرا کے ہم سے خود ہی صدمہ ٹوٹ جاتا ہے

یہ تارِ زندگی مسلمؔ متاعِ عنکبوتی ہے
بالآخر ایک دن مکڑی کا جالا ٹوٹ جاتا ہے









گھوم پھر کر اسی آئینے میں دیکھا خود کو
اپنے ماحول سے انسان نے سمجھا خود کو

ہم کو منظور نہ تھی اپنی انا کی سبکی
ہم سمجھ بوجھ کے دیتے رہے دھوکہ خود کو

ذات اپنی ہی بہر حال مقدّم ٹھری
پردۂ الفتِ اغیار میں چاہا خود کو

کسی صورت دلِ نادان بہلتا ہی نہ تھا
لوریاں دے کے ترقی کی سلایا خود کو

مار ہی ڈالتی حق گوئی کی عادت مسلمؔ
جھڑکیاں دے کے کئی بار دبایا خود کو





دریا ہے رواں خوں کا مرے قامت و قد میں
لے جانا لہو جب بھی کمی پاؤ رسد میں

کمرے میں ہوس کو تو چھپا سکتے ہو لیکن
یہ عشق ہے اور عشق ٹھہرتا نہیں حد میں

اک وہ نہیں شہر میں مجرم تو بہت تھے
بس یہ ہے کہ وہ آگیا الزام کی زد میں

کیا اس نے چھپا رکھا ہے ہمدردی کے پیچھے
بو گل کی تو ہرگز نہیں گل پوش مدد میں

سرخی سے دمکنے لگا اشعار کا چہرہ
کچھ خون کیا صرف جو اظہار کی مد میں

تخلیق تو خود اپنی سند ہوتی ہے مسلمؔ
نادان ہیں وہ لوگ جو الجھے ہیں سند میں

افسانوی غزل
عصمتؔ نے جب لحاف ادب کو اوڑھا دیا
عینیؔ نے بڑھ کے آگ کا دریا بہا دیا

منٹوؔ میں اور میرؔ میں ہے قدرِ مشترک
دونوں نے اختصار کو جامع بنا دیا

بکواس لکھتے رہنے سے اچھا ہے کم لکھو
دانا تھا جس نے راز یہ ہم کو بتا دیا

’ننگی سڑک پہ‘ بیٹھ کے ہم نے بھی کچھ لکھا
قاری کو 235’سکھ کی نیند‘ سے واقف کرادیا

ابھرا ہے اور تیز دھماکے کا ساتھ وہ
اندر کے جس ادیب کو میں نے دبا دیا

مسلمؔ ہے میرا نام مکمل ادیب ہوں
افسانوں کا غزل سے تعارف کرا دا
(235 ننگی سڑک پر اور سکھ کی نیند میرے افسانوں کے عنوانات ہیں۔)


آگ کے ساتھ ساتھ پانی ہے
جسم کی بھی عجب کہانی ہے

حال اس کا بیاں کروں کیسے
دل تو صدموں کی راجدھانی ہے

کردیں مسمار قصرِ ہستی کو
حادثوں نے یہ جی میں ٹھانی ہے

پھول کی پنکھڑی مرا احساس
اور بادِ صبا روانی ہے

جو بھی گذرے ہیں حادثے ہم پر
سب تمہاری ہی مہربانی ہے

میں اٹھاتا نہیں ہوں دیواریں
دل کی بستی مجھے بسانی ہے
اتنی چھوٹی سی بحر میں مسلمؔ
تیرا اظہار داستانی ہے



اب لباسوں کا کیا ہی کہنا ہے
کچھ نہیں پہنا اور پہنا ہے

شوق ہے اس کو خوش لباسی کا
وہ مزاجاً مگر برہنہ ہے

زندگی خوفناک جنگل ہے
اور سانپوں کے ساتھ رہنا ہے

یہ عمارت بنی ہے مٹی سے
جسم کو ایک دن تو ڈھہنا ہے

اب یہ عادت سی بن گئی مسلمؔ
شعر کہتے ہیں کیونکہ کہنا ہے






حواءِ نوَ
قلمکاری میں ماہر ہو گئی ہے
غزل پروین شاکر ہو گئی ہے

نہاں تھے ہم سے جو عورت کے جذبے
وہ خود ان کی مصور ہو گئی ہے

قد اتنا بڑھ گیا ہے شاعرہ کا
کہ ہمدوشِ اکابر ہو گئی ہے

نہیں ہے اب وہ مردوں کا کھلونا
سیاست کی بھی شاطر ہو گئی ہے

ہمارے عہد میں عورت بھی مسلمؔ
مدبر اور مفکر وہ گئی ہے






جن پر منٹوؔ گرجے ہے عصمتؔ بیدیؔ چلّائیں ہیں
آج وہی اونچی مسند پر بیٹھے ہیں اترائیں ہیں

طعنے، تشنے، جھڑکی، دھکّے، کیا کیا تحفے پائیں ہیں
تیری محفل سے ہم خالی ہاتھ بھلا کب آئیں ہیں

تم گھٹ گھٹ کر جئے، یہ عزّت دولت شہرت پائیں ہیں
غالبؔ ، میرؔ تمہارے لقمے شاعر آج چبائیں ہیں

بھرا ہے میرے اندر لاوا میرے مقابل مت آنا
میں شاعر ہوں ساری بلائیں لیتی مری بلائیں ہیں

باطل سے سمجھوتہ نہ کرنا ظلم نہ سہنا سچ کہنا
تعزیراتِ شہر میں مسلمؔ شامل اب یہ خطائیں ہیں




مشاہدے کا ہے جمگھٹ مرے روئیے میں
اسی کی پاؤ گے کروٹ مرے روئیے میں

پڑھا میں نے بہت اس لئے در آئی ہے
اساتذہ کی سی آہٹ مرے روئیے میں

بڑے سلیقے سے برتی ہے شاعری میں نے
ہے اصل میں تو سجاوٹ مرے روئیے میں

مرے سہارے سے سچّائی ہو گئی بے باک
اٹھا رہی ہے وہ گھونگھٹ مرے روئیے میں

قدم قدم پہ ریا اور مصلحت کوشی
نہیں ہے یار یہ جھنجھٹ مرے روئیے میں

بلا کا چلبلا، حاضر جواب اور فعّال
ابھی تلک ہے وہ نٹ کھٹ مرے روئیے میں

نہ راج کی ہے، نہ ہے بال کی، نہ تریا کی
صداقتوں کی ہے بس ہٹ مرے روئیے میں

یہاں پر بھرتے ہیں پانی سبھی بڑے چھوٹے
ملا ہے ان کو تو پنگھٹ مرے روئیے میں

ہے وہ تو گیان کی کٹیا مگر حریفوں کو
دکھائی دیتا ہے مرگھٹ مرے روئیے میں

کبھی ہے چاند، کبھی کہکشاں، کبھی سورج
کبھی ستاروں کا جھرمٹ مرے روئیے میں

اسے تو گوڈ نے اسموتھ ہی بنایا ہے
نہیں ہے ایک بھی سلوٹ مرے روئیے میں

اس عمر میں بھی شگفتہ ہوں میں جواں کی طرح
نہیں ہے چڑچڑا کھوسٹ مرے روئیے میں

میں چپکا رہتا ہیں ’کی۔بورڈ‘ سے بہت مسلمؔ
اسی سے آگئی کھٹ کھٹ مرے روئیے میں


خوشا کہ ختم ہوا بودوہست کا احساس
چبھے گا اب نہ کسی بندوبست کا احساس

یہ اس کی چیخ اچانک بتا گئی ورنہ
نہیں تھا مجھ کو خود اپنی گرفت کا احساس

یہ تھام لیتا ہے امکانِ فتحِ نو کے قدم
شکست سے بھی برا ہے شکست کا احساس

چہار سمت ہیں بس بے حسی کی چٹّانیں
مری صدا کو نہ ہو بازگشت کا احساس

غرض ہے لطفِ سفر سے ہمارے قدموں کو
نہ فکرِ جادہ و منزل نہ سمت کا احساس





یہ وقت وہ ہے جب طلبِ جام بہت ہے
جانکاہ تری یاد سرِ شام بہت ہے

اچھا ہے کہ ہم پر ہے ترے عشق کی تہمت
جینے کے لئے بس یہی الزام بہت ہے

اندازہ یہ ہوتا ہے کہ کل عید ہے شاید
کیوں آج یہ اک نور لبِ بام بہت ہے

اب آؤ چلو ہم بھی ذرا دیکھیں تماشہ
ہمسایہ کے گھر دیر سے کہرام بہت ہے

اپنے وطنِ ثانی میں مسرور ہے مسلمؔ
بھوپال میں رہ کر اسے آرام بہت ہے






زندگی بندگی ہو گئی ہے
زندگی زندگی ہو گئی ہے

یاد سے اس کی قلب و نظر میں
دور تک روشنی ہو گئی ہے

مل گیا ہے ہدف اپنی جاں کا
ختم اب بے بسی ہو گئی ہے

تذکرہ تھا کتابوں میں جس کا
یہ گھڑی وہ گھڑی ہو گئی ہے

دیکھئے ساتھ رہتا ہے کب تک
دوستی عارضی ہو گئی ہے
شور سینے میں کرتی تھی جو شئے
خامشی سے تری ہو گئی ہے

ٹھیک تھے تیرے آنے سے پہلے
بس یہ حالت ابھی ہو گئی ہے

چاند کیسا یہ ظلمت میں نکلا
ضو فشاں تیرگی ہو گئی ہے

آج پستی بلندی پہ مسلمؔ
کیسے ہنس کر کھڑی ہو گئی ہے










کسقدر بے خوف تھے ہم دشمنوں کے درمیاں
سازشوں میں گھر گئے ہیں دوستوں کے درمیاں

ہے یہ اک مٹتی ہوئی تہذیب کا اندازِ عشق
وہ جو دو آنکھیں ہیں روشن جالیوں کے درمیاں

مدتوں سے اک جہانِ وہم بھی آباد ہے
ہم اکیلے ہی نہیں ہیں فاصلوں کے درمیاں

غیر سے منسوب تھی ساری پسند و نا پسند
چند لمحے تھے بس اپنے مدتوں کے درمیاں

امن ہے سستی کا باعث خواب آور ہے سکوں
ذہن کھلتا ہے جہاں کا حادثوں کے درمیاں






خاموشی سے ہر رازِ نہاں کھول رہا ہے
وہ صرف تبسم کی زباں بول رہا ہے

صیادو مبارک ہو چلو دام بچھاؤ
سینے میں پرندہ کوئی پر تول رہا ہے

وہ زیست کے پیالے میں کہیں زہر نہ بھر دے
کانوں میں جو آواز کا رس گھول رہا ہے

تہذیب کی پوشاک سے جسموں کو سجا کر
؂بستی میں درندوں کا کوئی غول رہا ہے

الفت بھی عجب شئے ہے، وہ خاموش ہے، لیکن
اس شوق کا ہر عضوِ بدن بول رہا ہے

الفاظ یہ کس کے ہیں مجھے خوب پتہ ہے
یہ آپ نہیں اور بول رہا




مجھے لگا کہ کوئی بلبلہ سا پھوٹ گیا
وہ کہہ رہے ہیں کہ تارِ حیات ٹوٹ گیا

جنون و عقل کے گرداب سے نکل آئے
جب اپنے ہاتھ ہے دامن ہمارا چھوٹ گیا

تھا انحطاط کا اعلان نقطۂ آغاز
وجود پاتے ہی انسان ٹوٹ پھوٹ گیا

وہ کام آیا کہ سہمے ہوئے تھے جس سے ہم
گمان جس پہ نہیں تھا وہ ہم کو لوٹ گیا

اک عمر ہم نے گذاری کہانیاں سنتے
نہ سچ کا بول ہی بالا ہوا نہ جھوٹ گیا






کچھ اس طرح فرارِ غم کی راہ ڈھونڈتا رہا
مرا جنوں نئے نئے گناہ ڈھوندتا رہا

تمام آرزوئیں دوزخوں کی نذر ہو گئیں
تمام عمر جنتوں کی راہ ڈھونڈتا رہا

مصیبتوں سے ہارنا مرا مزاج ہی نہ تھا
مسرتوں کے لمحے گاہ گاہ ڈھونڈتا رہا

نئے نئے کھلونے چاہتا تھا قلبِ مضطرب
زمیں تو کیا نجوم و مہر و ماہ ڈھونڈتا رہا

اماں ملی ہے جب سے ہو گیا ہوں اسلحہ بکف
کہاں سکوں ملا کہ جب پناہ ڈھونڈتا رہا






اپنا سبک وجود بھی ہم پر گراں سا ہے
جینے کا حوصلہ مگر اب بھی جواں سا ہے

ٹوٹی ہے گر کے چیز کوئی بارہا مگر
سر پر محیط اب بھی وہی آسماں سا ہے

کب تک یہ حفظ لاشہِ بے جاں فراعنہ!
مستقبلِ وجود بہت بے نشاں سا ہے

روحوں کے اختلاط میں مشکل نہیں کوئی
اس کا حسین جسم مگر درمیاں سا ہے

دل ہے سرشتِ آدمِ خاکی سے با خبر
بدظن ہے سب سے خود سے بھی کچھ بدگماں سا ہے

محدود وسعتیں بھی مجھے دے گئیں شکست
صحرا بوجہِ لغزشِ پا بے کراں سا ہے



وہ ہیں خوش یا خفا سمجھنے لگے
ان کی اک اک ادا سمجھنے لگے

آئینے سے نہیں ہٹاتے نظر
خود کو کیا جانے کیا سمجھنے لگے

ان کو کیا دے دیا خدا نے کچھ
وہ تو خود کو خدا سمجھنے لگے

اس نے جو دیا سیاست سے
ہم اسی کو دوا سمجھنے لگے

اس کے بے ساختہ تبسم کو
مژدہِ سلسلہ سمجھنے لگے

منزلِ انتہا پہ آکر ہم
عشق ہوتا ہے کیا سمجھنے لگے

اپنا اقبالؔ ہو رہا ہے بلند
شرحِ بانگِ درا سمجھنے لگے

میرؔ آکر تمہارے قدموں میں
شعرِ نشتر ہے کیا سمجھنے لگے

جاگو مسلمؔ کہ یہ تو صحرا ہے
تم جسے راستہ سمجھنے لگے














سانسوں کے تانے بانے میں نامطمئن سا ہے
دل ایسے سردخانے میں نامطمئن سا ہے

کس دن بساطِ زیست پلٹ جائے کیا خبر
ہر مہرہ اپنے خانے میں نا مطمئن سا ہے

ہر چند مٹ چکا ہے ہمارا وجود بھی
وہ ہم کو آزمانے میں نا مطمئن سا ہے

ڈالے کمند کیوں نہ ستاروں پہ آدمی
قیدی ہے قیدخانے میں نا مطمئن سا ہے










سورج کو نگل جاتا ہے بدنام سمندر
ہوتا ہے خطرناک سر شام سمندر

انساں کی کہانی ہے کہ دریا کہ روانی
آغاز سمندر ہے اور انجام سمندر

ملاح کو کھینے کا سلیقہ بھی نہیں تھا
کچھ یوں بھی ہے پہلے ہی سے بدنام سمندر

وہ بوند کہاں ہے کہ مری پیاس بجھائے
صحرا ہے کہ بکھرا ہے بہرگام سمندر

کشتی مری ساحل سے ہم آغوش ہوئی جب
سر اپنا پٹکنے لگا ناکام سمندر





ختم ہو جائے گا سرمایہِ جاں کتنا ہے
اپنے ہونے کا مگر مجھ کو گماں کتنا ہے

استفادہ تپشِ دل سے کیا لوگوں نے
آگ دیکھی نہ یہ دیکھا کہ دھواں کتنا ہے

پہلے مرنے کا کوئی خوف نہیں تھا مجھ کو
تم کو پایا ہے تو اندیشہِ جاں کتنا ہے

سب یہی کہتے ہیں روداد ہماری سن کر
بات مہمل ہے مگر زور بیاں کتنا ہے








کہیں سے دیکھو بدلتی نہیں جہاتِ وجود
ہزار آئینے ہیں اور ایک ذاتِ وجود

نہ اختتام ہے اس کا نہ ابتدا کوئی
ازل سے جاری و ساری ہے کائناتِ وجود

جو ایک بار بنا پھر وہ مٹ نہیں سکتا
بدلتی رہتی ہیں اشکال و ماہیاتِ وجود

کتابِ جنبش و حرکت فضا میں ہے موجود
ہر اک ورق پہ رقم ہیں نگارشاتِ وجود

وجود ہی سے تو آباد ہے جہانِ عدم
ہے ایک وقفہ جو ہے پردہِ مماتِ وجود
بقائے چشمہِ انسانیت حسین سے ہے
بفیضِ تشنہ لباں ہے رواں فراتِ وجود
۔۔۔
نہ احتیاط و تکلف نہ انضباطِ وجود
وفورِ جذب اگر ہو تو ہے نشاطِ وجود

ہر ایک خلق کو بخشا گیا وجودِ محض
وہ ہم ہیں جن کو ملا کیف و انبساطِ وجود

جو ہے وجود وہی خالقِ وجود بھی ہے
بچھاتا رہتا ہے ہر دم نئی بساطِ وجود

خود اپنے آپ ہی ابنِ سبیل بھٹکا ہے
وگرنہ سیدھی تھی اور اب بھی ہے صراطِ وجود




تقاضے وقت کے پیہم بدلتے رہتے ہیں
ضروریات کے موسم بدلتے رہتے ہیں

کبھی ہے طنز کبھی قہقہ کبھی آنسو
ہماری یاس کے عالم بدلتے رہتے ہیں

کبھی سرور کبھی سیر اور ساز کبھی
ہم اپنے زخم کے مرہم بدلتے رہتے ہیں

ہے راگ دل کے تقاضے ایک ہی لیکن
وہ اپنے وعدوں کی سرگم بدلتے رہتے ہیں

ہمیشہ جیتنے والوں کی صف میں رہنا ہے
اسی لئے تو وہ پرچم بدلتے رہتے ہیں





قربت ہمیں نہ بخشئے احسان کی طرح
منظور ہم کو پیار نہیں دان کی طرح

وہ کامیاب ٹھہرے تجارت میں عشق کی
جو حسن کو سمجھتے ہیں سامان کی طرح

یہ آخری سہارا ہے ساقی ذرا سنبھل
پیمانہ ٹوٹ جائے نہ پیمان کی طرح

مخلص تھے جنّتوں سے کیا سب کو ہمکنار
محروم خود ہی رہ گئے رضوان کی طرح










مجھ سے زیادہ وہ مری پہچان سے ملا
جو آیا میرے گھر مرے سامان سے ملا

جب بھی میں اپنے وقت کے خاقان سے ملا
سر تھا بلند میرا، میں اس شان سے ملا

عاجز میں اپنی جان سے وہ اپنی زلف سے
اک خستہ حال ایک پریشان سے ملا

مدّت سے بحرِ شوق بہت پرُ سکون ہے
تو اس کو اپنے جسم کے طوفان سے ملا

رہ کر وہاں وہ اور بھی بے باک ہو گیا
الٹا ہی کچھ سبق اسے زندان سے ملا



وہ کسی شخص کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے
لوگ جس چیز کو کردار سمجھ لیتے ہیں

ہے ہمارے ہی لئے خود کو سمجھنا مشکل
ہم کہ سرگوشیِ دیوار سمجھ لیتے ہیں

مسلے جانے سے تو بچ جاتے ہیں گل ہو کر بھی
توڑنے والے ہمیں خار سمجھ لیتے ہیں

مشغلہ زہرہ جبینوں کا اداکاری ہے
اور اس کھیل کو ہم پیار سمجھ لیتے ہیں

وار تعریف کا خالی نہیں جاتا ہے کبھی
سب منافق کو وفادار سمجھ لیتے ہیں

اہلِ باطن کبھی تقسیم نہیں ہو سکتے
سازشِ جبہ ؤ دستار سمجھ لیتے ہیں

ہم گوئیے ہیں مگر اپنے ترنم کے سبب
سننے والے ہمیں فنکار سمجھ لیتے ہیں

جلد کھل جانے کی کوشش جو کیا کرتا ہے
سب اسے اور پراسرار سمجھ لیتے ہیں

جیب کی کس کو خبر سب مری خوش پوشی سے
جھک کے مل لیتے ہیں، زردار سمجھ لیتے ہیں
اور جب موج میں آتی ہے طبیعت مسلمؔ
کسی قہار کو غفار سمجھ لیتے ہیں


معمول کی حدود سے نکلا نہ کیجئے
جینے کی آرزو ہے تو سوچا نہ کیجئے

بچوں کو ہونے دیجئے احساس دھوپ کو
نشوونما نہ روکئے سایہ نہ کیجئے

ظالم پہ مہرِ عدل لگا دی عوام نے
چپ ہو کے بیٹھ رہئے تماشا نہ کیجئے

کھو جانے دیجئے مجھے باطن کے حسن میں
نظریں ذرا اٹھائیے پردا نہ کیجئے

ناقابلِ حصول کوئی شئے نہ دکھ پڑے
منظر کو دل کی آنکھ سے دیکھا نہ کیجئے






خود اپنے ہی ہاتھوں سے دل میں نشتر سے چبھو کر رہتے ہیں
رشتوں کے ہار میں پھول نہیں کانٹے بھی پرو کر رہتے ہیں

گرداب سے لڑنا ہے آساں سیلاب سے بچنا ہے ممکن
ساحل سے جو طوفاں اٹھتے ہیں کشتی کو ڈبو کر رہتے ہیں

جیون کے کسی دوراہے پر تم ہمکو ملوگے کیا تھی خبر
تقدیر میں جو کچھ لکھے ہیں وہ حادثے ہوکر رہتے ہیں

پھر آیا ہے رم جھم کا موسم یادوں کی گھٹا گھنگھور ہوئی
یہ بادل جب بھی اٹھتے ہیں پلکوں کو بھگو کر رہتے ہیں

منزل پہ وہی تو پہنچیں گے ہو جن کا سفر منزل کے لئے
چلنا ہی جن کی منزل ہو وہ قافلے کھو کر رہتے ہیں





یخ ہواؤں میں تو وہ جاں سے گذر جائے گا
میرے اندر یہ جو انسان ہے مر جائے گا

میرے احباب جب آئیں گے ہوا کی زد پر
مجھ کو معلوم نہیں کون کدھر جائے گا

رہ میں تنہائی کا احساس نہ ہوگا مجھ کو
میرے ہمراہ مرا ذوقِ سفر جائے گا

کچھ دنوں کا ہے خدا اس کو بھلا کیا پوجیں
وہ تو چڑھتا ہوا سورج ہے اتر جائے گا

جمع کرتے رہو شیرازۂ اسبابِ حیات
اسکی تقدیر بکھرنا ہے بکھر جائے گا






تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گی
میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی

چمنی سے ابلتی ہے وہ زنجیر دھوئیں کی
آزاد ہوا اب سے گرفتار چلے گی

تقدیر پہ انگلی کوئی ہرگز نہ اٹھائے
کس سمت ہوا کیا خبر اس بار چلے گی

سمجھوتے کی زنجیر نہ پہناؤ انا کو
ہمراہ سدا طنز کی جھنکار چلے گی

جب پڑ کے الٹ جائے گی دولت کی زرہ پر
مفلس ہی پہ حالات کی تلوار چلے گی

اے تشنہ لباں مژدہ ہے آرام سے بیٹھو
خود جوئے رواں سوئے طلبگار چلے گی



ہر گام پہ اندیشۂِ آزار بہت ہے
ہم کو بھی مگر نشہِّ کردار بہت ہے

چہرے کے تاثر کس یقیں کیسے کریں ہم
اس دور میں ہر شخص اداکار بہت ہے

انسان پہ کس درجہ حکومت ہے غرض کی
مطلب ہو تو دیوانہ بھی ہشیار بہت ہے

پھرتا ہے گلی کوچوں میں وہ خاک اڑاتا
آزادی کے دھوکے میں گرفتار بہت ہے








یوں ہی جینا اگر ہے مر مر کے
دیکھئے کوئی تجربہ کر کے

یہ حسیں بت ہیں سنگِ مر مر کے
آخرش ہیں تو بھی پتھر کے

ہونگے چرچے جہاں کہیں سر کے
نام آجائیں گے بہتّر کے

میں کہاں اور آپ کس گھر کے
ہمنشیں کھیل ہیں مقدر کے

اک ذرا کیا تھکے مرے بازو
حوصلے بڑھ گئے سمندر کے!

آج کوئی ادھر نہیں آیا
کب سے ہم منتظر ہیں پتھر کے
کیا زمانہ تھا پارک میں مسلمؔ
ساتھ ہوتے تھے جب گلِ تر کے

دوست یوں جلاتے ہیں، ایسے خوں رلاتے ہیں
محفلیں سجاتے ہیں، ہم کو بھول جاتے ہیں

ان کو شرم آتی ہے ہم کو جب بلاتے ہیں
منہ سے کچھ نہیں کہتے، چوڑیاں بجاتے ہیں

لوگ سب تھکے ہارے وقت یوں بتاتے ہیں
داستان سنتے ہیں، داستاں سناتے ہیں

کیمپس کی یادیں سب اپنے ساتھ لاتے ہیں
لوگ جب علی گڑھ سے ہم سے ملنے آتے ہیں

ہرطرف چلن ہے اب، جب بھی گھر سے جاتے ہیں
لوگ آستینوں میں اپنی کچھ چھپاتے ہیں

اپنی تو بہار آمد، اس کی آمد آمد ہے
جسم و دل کے دروازے آج ہم سجاتے ہیں

اب مزا ہے جینے کا اس کے رنگ میں رنگ کر
رنگ کچھ اڑاتے ہیں، رنگ کچھ جماتے ہیں

فطرتی تھے کتنے ہم مسلمؔ اپنے بچپن میں
جب بزرگ ملتے ہیں ہم کو سب بتاتے ہیں









چھوٹی سی رکاوٹ ہے دیوار نہ مانوں گا
میں ہار نہیں مانا، میں ہار نہ مانوں گا

اخبار کے باعث ہوں ہشیار نہ مانوں گا
میں رہبرِ رہزن کو سالار نہ مانوں گا

دامن پہ، دہن پر کیا یہ دودھ کے دھبّے ہیں؟
کیوں وہم ہے پھر تم کو خونخوار نہ مانوں گا

آزارِ زمانہ کو آزار توسمجھوں گا
جوتم نے دئے ان کو آزار نہ مانوں گا

اس جگہ وہ صدیوں تک محبوب سے ملتا تھا
مسلمؔ کے سوا اس پر حقدار نہ مانوں گا






تمہارے حسن کی تمثیل شاعری میری
جنوں کے حکم کی تعمیل شاعری میری

کوئی صحیفہ نہ تنزیل شاعری میری
مگر ہے واجبِ ترتیل شاعری میری

ہر اک خیال کی تصویر اس میں ملتی ہے
نگار خانہِ تخئیل شاعری میری

ہے آبشار کبھی اور کبھی ہے جوئے رواں
بھی ہے ٹھہری ہوئی جھیل شاعری میری

شراب اور بھی غم کو ابھار دیتی ہے
دکھوں کو کرتی ہے تحلیل شاعری میری

غرض نہیں ہے زمانے کی داد سے مسلمؔ
مرے وجود کی تکمیل شاعری میری




مصلحت اور برائی سے نبھانے والا
ہاں نہیں مجھ میں یہ انداز زمانے والا

اس کو بھی مار گیا جذبہِ ایثاروخلوص
خود بھی تیراک نہ تھا مجھ کو بچانے والا

اس لئے خیمہِ سفاک میں ہے جشنِ ظفر
گر گیا آج وہ گرتوں کو اٹھانے والا

کوئی دستک نہ کوئی شور نہ آہٹ، دل میں
یوں دبے پاؤں چلا آتا ہے آنے والا

داستاں خود کو کہلواتی رہے گی یونہی
ایک جائے گا اک آئے گا سنانے والا





جس جانب بھی قدم نکالا دشمن ہے
ہر کوچے میں ہم نے پالا دشمن ہے

کچھ حکمت ہے یا پھر کوئی مجبوری
بیٹھا اس بزم میں بالا دشمن ہے

عرصے بعد ملا اک پنچنگ بیگ ہمیں
شکر یہ ہے کہ وہ ہمت والا دشمن ہے

دن ڈستا ہے رات جراحت دیتی ہے
گورا دشمن ہے اور کالا دشمن ہے

راہ بری کرتا ہے نکتہ چینی سے
دوست سے بڑھ کر وہ متوالا دشمن ہے

دوری ہم نے ان سے قائم رکھی ہے
مئے ہے اپنی دوست نہ پیالہ دشمن ہے
ُاُس سے مسلمؔ مجھے کوئی خوف نہیں
وہ تو میرا دیکھا بھالا دشمن ہے

کچھ اس خوبی سے ہم نے گل کھلائے
زباں چپ تھی، قلم نے گل کھلائے

گلستاں ہو گیا کانٹوں کا جنگل
ہمارے ہر قدم نے گل کھلائے

رواں تھی راہ پھر اک دن اچانک
مری قسمت کے خم نے گل کھلائے

ہزاروں آفتیں نازل ہوئی ہیں
یہ کیا تیرے کرم نے گل کھلائے

جدا ہیں شعر میرے سب سے مسلمؔ
نئے پن کی قسم نے گل کھلائے


سمجھوتے کا قائل ہوں رہ رہ کے لچکتا ہوں
اتنا نہ جھکا مجھ کو میں ٹوٹ بھی سکتا ہوں

جب اونچے پہاڑوں سے ٹکرا کے پلٹتا ہوں
میدان ہی نیچا ہے امیداں پہ برستا ہوں

کھائے ہیں فریب اتنے انسان سے ڈرتا ہوں
وحشت میں خود اپنے ہی سائے سے بھڑکتا ہوں

یخ بستہ ملاقاتیں رشتے بھی ہیں برفیلے
یہ آگ بھی کیسی ہے میں جس میں سلگتا ہوں

کچھ اور ستم اس نے ایجاد کئے ہوں گے
ظالم کے تبسم کو میں خوب سمجھتا ہوں

عزیز درّانی
اک درِّ نایابِ ادب، اک گوہرِ نادرویکتا تھا
جس کی جہاں نے قدر نہ کی درّانی ایسا ہیرا تھا

مست قلندر، بے پروا، سرشارِ رضائے مولا تھا
غوث، ولی،ابدال،قطب، اﷲ ہی جانے وہ کیا تھا

حسبِ حال کوئی اک شعر وہ مجھ کو دیکھ کے پڑھتا تھا
اس کو سارا حال پتہ ہے اکثر ایسا لگتا تھا

اس کا ہی بس ہو جاتاتھا جو بھی اس سے ملتا تھا
نام عزیزؔ تھا اس کا بر حق ہر دل میں وہ رہتا تھا

ستواں ناک تھی پتلے لب تھے، جن پہ تبسم رہتا تھا
لمبے لمبے گیسو اس کے اور مخروطی چہرہ تھا

۷۰ کے پیٹے میں ہو کر بھی کافی پھرتیلا تھا
لمبے لمبے قدم اٹھا کر اعتماد سے چلتا تھا

اب بھی نظریں ڈھونڈھ رہی ہیں اپنے مخلص رہبر کو
جمِّ غفیرِ انسانی میں وہ انسان اکیلا تھا

داد نہیں دیتا تھا مجھ کو وہ دانائے شہرِ سخن
لیکن یہ بھی کیا کم تھا وہ شعر مرے سن لیتا تھا

تم کو نہیں معلوم کہ یہ اشعار لکھے میں نے کیسے
حرف حرف تھا صرفِ گریہ، لفظ لفظ پر رویا تھا

پی ڈبلو ڈی میں رہ کر بھی وہ بے داغ نکل آیا
اس کی دیانت اسکی ثابت قدمی کا کیا کہنا تھا

کون یہ کہتا ہے مسلمؔ دنیا میں نہیں ہے درّانی
اب بھی وہ میرے دل میں ہے پہلے بھی دل میں رہتا تھا

منافعہ خوروں، ذخیرہ اندوزں اور کالے بازاریوں کا ترانہ

ہر شخص کو منٹوں میں پٹا لیتے ہیں ہم لوگ
باتوں سے جگہ دل میں بنالیتے ہیں ہم لوگ
خاموشی سے پھر مال اڑا لیتے ہیں ہم لوگ
سرسوں کو ہتھیلی پہ جما لیتے ہیں ہم لوگ
بگڑی ہوئی ہر بات بنالیتے ہیں ہم لوگ

ہم لوگوں سے سیکھے کوئی جینے کا قرینہ
بوتے نہیں بے کار میں ہم نخلِ تمنا
آتا ہے ثمر باری کا جس وقت زمانہ
اوروں کے درختوں کو گرا لیتے ہیں ہم لوگ
بگڑی ہوئی ہر بات بنالیتے ہیں ہم لوگ

کرتے ہیں کلرکوں کی شب و روز خوشامد
ہوتی نہیں گر پھر بھی کوئی خاص درآمد
کرلیتے ہیں پھر جیب سے کچھ نوٹ برآمد
روٹھے ہوئے بابو کو منالیتے ہیں ہم لوگ
بگڑی ہوئی ہر بات بنالیتے ہیں ہم لوگ

کردار سے کچھ خاص نہیں ہم کو لگاوٹ
ہے یہ بھی گنہ کوئی کہ کرتے ہیں ملاوٹ
جس چیز کی سپلائی میں پاتے ہیں گراوٹ
اس چیز کو اس طرح بڑھالیتے ہیں ہم لوگ
بگڑی ہوئی ہر بات بنالیتے ہیں ہم لوگ

حالات سے سمجھوتے کو تیار ہیں ہر دم
ہم کو تو بہر حال فوائد ہیں مقدم
ذی جاہ و اثر جب کوئی ہوجاتا ہے برہم
اگلے ہوئے لقموں کو چبا لیتے ہیں ہم لوگ
بگڑی ہوئی ہر بات بنالیتے ہیں ہم لوگ

کیا فکر ہے چلتی رہیں لوگوں کی زبانیں
وزراء کے سہارے پہ ہیں قائم یہ دکانیں
ممکن ہے بھلا درد ہمارا وہ نہ جانیں
ان کو بھی ہمدرد بنا لیتے ہیں ہم لوگ
بگڑی ہوئی ہر بات بنالیتے ہیں ہم لوگ

اپنے لئے رحمت ہے تو ان کے لئے مہلک
وہ بھوک کہ ہے جس سے پریشان یہ پبلک
سہ چند ہمیں نفع عطا کرتا ہے مالک
گوداموں میں اجناس چھپالیتے ہیں ہم لوگ
بگڑی ہوئی ہر بات بنالیتے ہیں ہم لوگ


بھوپال گیس حادثہ
سنبھال لے کوئی مجھ کو دعا کے ہاتھوں میں
میں اک کھلونا ہوں پاگل ہوا کے ہاتھوں میں

پلا دیا گیا موجِ صبا کو زہر کا جام
تھما دئیے گئے خنجر ہوا کے ہاتھوں میں؂

لکھا تھا از سرِ نو قصہِ حیات و ممات
بہت روانی تھی اس دن قضا کے ہاتھوں میں

وبا وہ پھیلی کہ تشخیص ہو گئی بوڑھی
یکایک آگیا رعشہ شفا کے ہاتھوں میں

وہی عزیز کہ جو جان سے بھی پیارے تھے
انھیں کو چھوڑ گئے سب فنا کے ہاتھوں میں
۔۔۔۔۔
لفظ جامد ہوگئے منظر ٹھہر کر رہ گیا
شعر میں کیسے کہوں احساس ششدر رہ گیا

زہر گھولا تھا ہواؤں نے فضا میں اس قدر
سانس جس نے زور کی لی آہ بھر کر رہ گیا

خوف کے ماحول میں اہلِ عناں تھے بے لگام
سرد کاریں بھاگ نکلیں گرم بستر رہ گیا

ہے یہ سچ چنگیز و نادر تو نہیں آئے یہاں
ہاں مگر اس شہر میں اک دورِ بربر رہ گیا

سونپ ڈالا موت کے ہاتھوں کسی نے لختِ دل
اور کسی گھر میں کوئی ماہِ منور رہ گیا

آڑ میں مارا گیا جو علم اور تحقیق کی
سینہ انسانیت میں بس وہ خنجر رہ گیا









































































No comments:

Post a Comment