غزل
سیدّہ ناہید نشتر خیرابادی
بر بطِ دِل پر مِرے ہے سوز کی سَر گم
جِسکے ہرسُر میں مچلتا ہےتِری فُرقت کا غم
رُوح میں پیوست ہے کُچھ اِسطرح سے درد و غم
اِس سے بڑھکر اَب خوشی ہے اور باقی ہے نہ غم
ز ندگی کا اَب یہی باقی بچا سر ما یہ ہے
دِل شکِستہ ، تیری یادیں اور میری چشم ِ نم
بِجلیاں ، سیلاب ، بارِش ، اور اِک طوفانِ غم
کوئ دیکھے تو غِم دِل کا مِرے آکر الَم
اب کہاں بد ليگا اے نا ہيد عا لَم ہِجر کا
جان ميں جب تک ہےجاں اور جب تلک دَم ميں ہے دَم
No comments:
Post a Comment