یہ کس کو دھوکا دے رہی ہو سمن۔۔۔۔۔۔کس کو۔۔۔۔۔۔ زمانے کو یا اپنے آپ کو۔۔۔۔۔۔زمانے کو تمہارے دھوکے فریب سے کوئی غرض نہیں اور اگر خود سے یہ فریب کررہی ہو تو بیوقوفی ہے یہ ۔۔۔۔۔۔انسان اپنے آپ کو دھوکا نہیں دے سکتا، نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔۔قطعی نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔۔ ایک زخمی سی کربناک صدا ماحول میں گونج گئی۔
نہیں۔۔۔۔۔۔خاموش رہو۔۔۔۔۔۔ سمن زور سے چیخی۔۔۔۔۔۔ اس کی آواز میں دکھ کا سمندر موجزن تھا۔۔۔۔۔۔ چہرہ آنسوؤں سے ملبوس اور آنکھوں میں خوف کا سایہ تھا۔۔۔۔۔۔قد آور آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی وہ خود اپنے اندر کی صداؤں سے لڑ نے لگی تھی۔۔۔۔۔۔اور اس کا ضمیر اسے نوچ نوچ کر کھا نے لگاتھا۔ آئینہ خاموش تھا لیکن ذہن ودل میں زلزلے برپا تھے۔۔۔۔۔۔اب سامنے آئینہ تھا ۔۔۔۔۔۔وہ بے ارادہ اب بھی اپنے آپ کو آئینے میں گھور رہی تھی جیسے زیر عکس کوئی اجنبی لڑکی کھڑی ہے جس سے وہ ذرہ برابر بھی آشنا نہیں ہے کہ پھر ایک سوال نے جنم لیا۔۔۔۔۔۔
کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔۔۔۔ ایک عجیب سے سوال نے اسے پھر جکڑ لیا ، یہ آواز کسی اور کی نہیں خود اس کی روح کی آواز تھی۔
وہ بغور اس طرف دیکھ رہی تھی کہ جہاں سے یہ آواز آئی تھی،
پھر صدا گونجی..............
کیا دیکھ رہی ہو سمن، کیا گھو ررہی ہو۔۔۔۔۔۔تم مجھ سے بچ کر کہاں جاؤگی۔۔۔۔۔۔ سمن میں تمہارا ضمیر ہوں۔۔۔۔۔۔تمہاری ذات کا سب سے حساس حصہ۔۔۔۔۔۔
تم کیوں کر مجھے دھوکا دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔
تم عورت کے نام پر ایک بدنما داغ ہو۔۔۔۔۔۔
عورت لفظ پر ایک تہمت ہو۔۔۔تم دنیا کے لیے ایک ناصور ہو۔۔۔۔۔۔سمن
اپنے آپ کو سرخ رنگ لباس میں سجا کرشا ن و شوکت والی بنتی ہو .......... لیکن جان لو چہرے پر سفیدی دالے تم اپنے بدرنگ روپ کو چھپا ہی سکتی ہو لیکن مت بھولو تمہارے درمیاں جو سیاہی و بدکاری کا انبار ہے.......... کہاں دفن کروگی اسے......... کیسے چشم پوشی کروگی ان سب سے۔۔۔۔۔۔
بولو سمن۔۔۔۔۔۔ کہو جواب دو۔۔۔۔۔۔
یہ نقاب اُتار پھینکو اور جواب دو۔۔۔۔۔۔
سوالوں کے بوجھ کو سمن برداشت نہ کرسکی اور بے سدھ و بے دم ہوکر یکایک زمین پرگر پڑی، اس کا ذہن کند ہوا تھا اور جسم کی طاقت ختم ہوچکی تھی۔۔۔۔۔۔اسے کچھ ہوش نہ رہا۔۔۔۔۔۔ایک ہارا ہوا جسم ایک ٹوٹی ہوئی آس کا منظر تھا.......
شام کے ۷ بجے تھے، سمن نے بہت مشکل سے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔۔۔۔ سراب بھی بھاری تھا، آنکھیں نہ جانے کتنے وزنی بوجھ سے دبی جارہی تھیں۔ ہاتھ پیر ،تمام جسم قابو سے باہر تھا، جیسے کسی لمبی بیماری نے اُسے قیدرکھا تھااور وہ ہزارہا کوششوں کے باوجود کچھ بھی حرکت کرپانے سے لاچار تھی۔ بہ مشکل اپنے آپ کو کسی طور سنبھالتی ہوئی وہ فرش سے اٹھی ، دو پٹہ وہیں گرا ہوا تھا ، اسے چھوڑ وہ بوجھل قدموں سے اپنے دیوان کے قریب پہنچی اور دھم کر اس پر گر پڑی۔۔۔۔۔۔
دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے سمن نے اپنے چہرے کو کس کر بھینچ لیا اور اپنے اندر کی کشمکش کے زاویہ میں کھو گئی۔۔۔۔۔۔ نہ جانے کب ماضی نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا جہاں خوفناک خواب اس کے منتظر تھے۔۔۔۔۔۔
آخر خود سے لڑنے کی یہ عادت سمن میں کیوں کر داخل ہوگئی۔ ایک ضد اس کی فکر کواندر ہی اندر نچوڑ نچوڑ کر پی رہی تھی وہیں ایک باغی سوچ نے بھی اسے آ گھیرا تھا۔۔۔
آج کے زمانے میں بھی گھریلو بے رنگ زندگی...........،نہ کوئی آس نہ روانی ...........روایتی ڈھرے پر چلتی اداس سادہ زندگی ......توبہ .
کہ جہاں نہ اپنی پہچان ہے، نہ ہی کوئی خوشی، فقط زندگی ایک مجسمہ کی طرح ہے ، جو نہ اپنی مرضی سے ہلتا ہے نہ مسکراتا ہے
تمام عمر عاجزی اور بے زاری سے گزارنے کی کوئی چیز ہوئی ہو جیسے۔۔۔۔۔۔اپنے آپ کو ان ذمہ داریوں کے درمیان کھو دینے کا نام بھی کیا زندگی ہے۔
یہ سوال بارہا سمن کے ذہن میں خراش پیدانے لگا تھا۔۔۔۔۔۔نہیںیہ نہیں ہوں میں۔۔۔
سمن ایسی قطعی نہیں ہوسکتی۔۔۔ میں کسی بوجھل رشتے کے وزنی پاٹوں کے درمیان اپنی آزاد اور بے فکر زندگی کو تباہ نہیں کرسکتی۔
میری زندگی عام عورتوں کی سی نہیں ہے ............بچپن سے آج تک میں نے جو چاہا وہ کیا تو اب بھی میرا مقدر میرا ہی رحینِ منت ہے
اور پھر سمن ایک تیز لیکن تلخ فکرکی شکار ہونے لگی اور ہولے سے سوال کر بیٹھی
میں عورت ہوں تو کیا مجھے جینے کا کوئی حق نہیں۔ مرد جو چاہے کرے۔۔۔۔۔۔کیا مرا دل نہیں ہے کیا۔۔۔کیا میں انسانی زندگی کے اصل مزے سے لطف اندوز نہیں ہوسکتی۔۔۔
ہاں بالکل میں اپنی زندگی اپنی شرطوں پر اپنے بنائے قاعدوں پر جیوں گی اور جو میری خوشی کے راستے میں کانٹا بنا۔۔۔ میں اُسے جڑ سے اُکھاڑ پھینکوں گی۔ میں سب کچھ کر سکتی ہوں ، مجھے کسی کا خوف نہیں ، میں کمزور نہیں ہوں اور دنیا کو دِکھا دوں گی کہ میں کیا ہوں۔
نئی بیباک و بے پایہ فکر نے سمن کو آکر دبوچ لیا ۔۔۔۔۔۔اور اس دن سے ہی اس نے اپنے آپ کو انجان راہوں کی جانب روانہ کردیا کہ جہاں شان و شوکت کے ناپائیدار جلووں اور بے حیائی کے کچھ اور درپیش نہ تھا۔ ہوائی خیالوں اور وقتی مزا کے پیمانے چھلکتے ہوئے اسے مسرور کرنے لگے ۔
نئی بلندسوسائٹی اور انجوائے کے نام پر انسان کے جسم و جاں کے سودے کیے جاتے تھے۔ شراب اور پب و کلب پارٹی کے انداز میں ہائی کلاس کا بدرنگ زیر نظر تھا۔ نئے سماج کی عورت ترقی اور بلندی کے نام پر عریانی اور بے حسی کی مورت بنی ہوئی تھی ۔ اپنے تہذیبی لبادوں کوجلاکر خود خاک کیے جارہی تھی، اس کی نظر میں یہ تمام بدکاری او ربے عملی اس کی اعلیٰ ذہانت اور ترقیاتی فکر کے عنصر تھے، جہاں وہ غیر مردوں سے گلے مل کر خوش ہورہی تھی۔ روز و شب کے فرق کو فراموش کیے زندگی کو اندھا دھند پھیلتے دھوئیں کے کش میں اُڑانے لگی۔
اپنی تعلیم کو ذہانت و فیشن کا نام دے کر اس بدذات تہذیب کو عصری ضرورت قرار دینے لگی۔ سمن اس بے مہذب سوسائٹی کی پرستار ہوچکی تھی۔ پیسے، وقت اور اپنی صلاحیت کو برباد کرنے لگی ۔ دکھاوے اور نئے کلچر کے نام پر اپنے تمدن کا گلا گھونٹ دیا ۔۔۔۔۔۔ اور یہ بھی بھول گئی کہ یہ وہ خود نہیں ، ایک وقتی شیطان ہے جو اس پر طاری ہوگیا ہے، جسے وہ اپنی ضرورت مان رہی تھی ۔ وہ اس کی زندگی کا سب سے گہرا سیاہ کنواں ہے جس نے اسے نگلنا شروع کردیا ہے اور اس کی زندگی اسی روز و شب میں غرق ہورہی ہے۔
سمن صبح و شام اسی انداز کی حامل ہوگئی ۔ جفاکش، بے حس اور بے پرواہی کے نشے میں اپنے آپ کو مصروف کرلیا۔ اس سے سب جدا ہو گئے، اور اس کی لا شعوری نے اسے احساس و جذبات کے کومل دھاگوں سے بھی کہیں دور پھینک دیا ہے، جہاں نہ محبت کا احترام، نہ وفاؤں کی ستائش، فقط دِکھاوے اور خودغرضی کی میلی چادر اپنے جسم پر اوڑھے وہ خود پہ نازکن تھی۔
اس دوران کئی مرتبہ اسکے لئے فکرمند رہنے والوں نے اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی لیکن وہ تو کٹی پتنگ ہوئی آسمان پر لہرا رہی تھی ۔اس ترقی اور آزادی کا رنگین چشمہ اسے کچھ اور دیکھنے کی اجازت نہ دیتا تھا وہ اپنی ہی دنیا میں کھوتی چلی گئی................
ناز تو ہنرمندی پر ہوتا ہے۔ بے حیائی اور بدنامی پر غرور تو اول مرتبہ ہی پیش نظر تھا لیکن پھر بھی اس جرم کے احساس سے ایک دم چشم پوشی کیے وقت گذارنے لگی تھی۔۔۔۔۔۔ ابھی وقت تو اس کے ہاتھ میں تھا ، لیکن عقل وشعور کے فقدان نے اس کی سوچ کی پرواز کو ماند کردیا تھا۔ لیکن اچانک کسی نے اس کے اس مخمور پیمانے پر وہ زوردار وار کیا کہ وہ بکھر کر پاش پاش ہوگئی اور اس پیمانے کی کرچیں اس کے احساس کو زخمی کرگئیں۔
آج سالہا بعد ایک پارٹی میں اس نے شیزان کو دیکھا ۔
شیزان جو کہ کالج میں اسکا کلاس میٹ تھا اور اس سے محبت کرتا تھا وہ شادی کا ارادہ بھی رکھتا تھا، نیک، شریف، ایماندار اور قابل انسان کی حیثیت سے وہ ادبی حلقوں میں مشہور تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سمن بھی اسے دل ہی دل میں چاہتی تھی، لیکن اپنی آزاد و بیباک فکر کے تحت کسی مرد کی دسترس سے گریز کرتی تھی، پھر وہ چاہے محبت کی بانہیں ہی کیوں نہ ہوں اسنے کبھی انکا خیال تک نہ رکھا جو اسے زمانہ کی رفتار سے جدا کر دیں ۔۔۔۔۔۔
شیزان سمن کی بہت عزت کرتا تھا اس کے تبدیل ہوتے ماحول پر پریشان بھی رہتا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ سمن کو سمجھانے کی کوشش بھی کی لیکن سمن کی نگاہیں تو اس نشے میں چور تھیں کہ اسے زیر و زبر کا فرق بھی نظر نہ آیا اور بہت آسانی سے اس نے شیزان سے ترکِ تعلق کرلیا۔
آج شیزان ایک بڑے ادیب اور عہدیدار وباو قار پارٹی میں شریک ہوا۔ ۔۔۔۔۔۔دور سمن اسے دیکھتی رہی ، لوگ شیزان کی حیثیت ، اس کی قابلیت کی ستائش میں مصروف تھے۔
وہیں شیزان نے بھی مدہوش سمن کو کئی بار نہارا تھا۔۔۔۔۔۔
دلمیں محبت قائمتھی لیکن ہمدردی بھی جاگ اٹھی ......... وہ لوگوں کی نظروں سے بچتا ہوا سمن کو دیکھتا .........
سمن نے شراب کے نشے میں کھو کر جانے کیوں پھر جام پر جام چھلکائے
وہ کبھی جھومتی کبھی بے ساختہ لہرا جاتی ۔
وہ اس قدر پی رہی تھی کہ خود پر قابو نہ رکھ سکی اور دو قدم کے بعد لڑکھڑا کر گر پڑی۔ نہ اسے اپنی سدھ تھی نہ ماحول کی خبر کہ اچانک ایک فقرے نے اس کی انا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔
کسی نے بہت اُکتا کر کہا۔۔۔ اس عورت کو دیکھو نہ جانے کس کے ساتھ آئی تھی اور جانے کس کے ساتھ جائے گی اور اس پر اس قدر شراب پی رکھی ہے کہ اپنا خیال تک نہیں ۔
یہ تو نہ چل پارہی ہے ، نہ خود کو سنبھال ہی سکتی ہے ، بس اپنی بولڈ امیج کے چکر میں کیا کیا کر رہی ہے، ہر جگہ اس کا یہی حال ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔
بس ایک فقرے کی ضرورت تھی بس ہزاروں فقرے نشتر کی صورت سمن پر برس پڑے ،
اس عورت کو تو خود پر بہت ناز ہے۔ کسی نے کہا ۔۔۔اوہو ایسی عورتیں کچھ سال ہی اپنے روپ کے جلووں سے لوگوں کا دل بہلاتی ہیں ، پھر انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔۔۔
پھر کسی نے فقرہ کسا۔۔۔اچھے خاصے شریف گھروں کی لڑکیاں تو اس پڑھی لکھی عورت کے زیر اثر تباہ و برباد ہوجائیں ، یہ تو ہمارے معاشرے کے لیے زہر ہیں زہر۔۔۔
ایک خاتون نے آگے آکر سمن کو اٹھانا چاہا تو کسی مرد نے اسے روک دیا اور کہا۔۔۔
ارے شریف عورتیں ایسی عورتوں کے قریب نہیں جاتیں ، عورت شرم و حیا کی مورت ہوتی ہے ، ایسی بے حس و جبرپرست عورت سے دور ہی رہو۔۔۔
زخم پر زخم برس رہے تھے کہ مجموعہ میں شیزان سمن کے قریب آیا ، اسے اٹھاکر سہارا دیا اور باہر لاکر اپنی گاڑی میں بٹھا دیا ۔۔۔ سمن اب بھی نیم بیہوش تھی ۔۔۔ اور شیزان کی جھومتی صورت دیکھ کر رو نے لگی ۔۔۔
اس کی آواز حلق میں پھنس گئی........ اور ندامت و احساسِ پشیمانی اس کے چہرے سے عیاں تھا ۔
شیزان نے گاڑی اسٹارٹ کی اور تیزی سے سمن کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔۔۔ بغیر کوئی بات کیے وہ اسے کمرے میں چھوڑ کر خاموشی کے ساتھ چلا گیا۔۔۔۔۔۔
اب سمن تھی اور اسکی جاگتی غیرت .................... آج جو تماچہ اسکی ذات پر لگا تھا اسنے اسکی بیحسی کو چکنا چور کر دیا .................
یہ وہ وقت تھا کہ جب انسان کی بدکاری اور غفلت کی تلواریں انسان کے ذہن کو کاٹنا شروع کرتی ہیں ............تنہائی اور غیرت اسکی روح کو چھلنی چھلنی کئے دیتی ہیں اور لاچارگی و بے بسی کے سوا کچھ نہیں ہوتا...........
دو دن سمن گوشہ نشیں سی ہی ہو گئی ، کھانا نہیں کھایا، اور کسی سے کوئی بات بھی نہیں کی،
موجود بھی تو کوئی نہیں تھا جو اسکے بکھرتے آنسوؤں کو سمیٹتا
کوئی نہیں بچا تھا اس گھر میں ، ایک چھوٹی بہن جو اس کی عادتوں کی وجہ سے بہت مختصر مزاج ہوگئی تھی۔ دور دور ہی رہتی تھی .............
فون اٹھا کر چاہا کسی سے بات کرلے لیکن کس سے کوئی بھی نمبر ایسا نہیں تھا جو اسکے غم کو صبر کی چادر میں لپیٹ دیتا نمبر جن کے موجود تھے وہ صرف لطف اور ہنسی کی محافل کے پجاری تھے ...............
دوست کے نام پر کوئی ہمدرد نہیں تھا ................
رشتہ دار اس سے اپنا ہر رشتہ توڑ چکے تھے ........................
پڑوسیوں کی کھڑکیاں تک اسکی جانب نہیں کھلتی تھیں انہیں بھی اندیشہ تھا کہ کہیں اس عریانیت و جبر پرست عورت کی زہریلی سوچ کی فضا ہمارے نیک گھروں میں نہ گھس آئے ............ اکثر آس پڑوس کے لوگ اس سے نظر بچا کر رستہ ناپ لیا کرتے تھے .......اس بات کا بھی اندازہ آج ہی ہوا سمن کو .....................
خیر ایک سانس اور دھڑکن کے سوا اسکے کچھ قریب نہ تھا اور ان پر بھی اب اسے اعتبار کم ہی تھا ........................
خود اپنے آپ سے لڑتے لڑتے ختم ہونے لگی تھی اپنی ہی کارگزاری نوچ نوچ کر کھانے لگی تھی جیسے سمن کو ..........................پل پل گزرنے لگا ......... نشہ بھی اترنے لگا ....................
خیالوں کی دنیا بھی کہاں اپنی ہوتی ہے ۔اور وہ حال میں لوٹ آئی...........لیکن خودسے جنگ جاری تھی....... دن گذر رہے تھے اور آج تیسرا دن تھا سوگ کا ............
دوپہر کے وقت ایک خط آیا ، جس پر سمن کا نام لکھا تھا اور نیچے بھیجنے والے نے لفافے پر خیرخواہ لکھ کر چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔۔
سمن نے لفافہ کھول کر دیکھا تو شیزان کی بیحد مختصر لیکن پُر اثر تحریر تھی........... لکھا تھا
’’سمن کیا تم کامیاب ہوچکیں، کیا تم نے اپنی آزاد زندگی میں سکون و عروج کے گوہر چن لیے، کیا اس طرح جی کر تم Satisfiedہو۔۔۔۔۔۔گر یہی زندگی ہے تو خدارا بتادو موت کیا ہے؟ آخر زندگی تو تعمیر کا نام ہے، تخریب کے خنجر سے اپنی تہذیب کو کاٹ کر تم تعمیر زن کیسے کرپاؤگی ................. بس بہت ہوچکا ، سب چھوڑ دو اور لوٹ آؤ.
صرف تمہارے لئے....... تمہارا منتظر
شیزان
سمن کی نگاہیں شیزان کے احترام میں جھک گئیں، اشکوں کے موتی خط پر بکھر گئے اور سمن کی فکری کدورت رفتہ رفتہ بے داغ ہونے لگی۔۔۔۔۔۔
از: ڈاکٹر زیبا زینت
No comments:
Post a Comment