Thursday, 17 October 2013

YADEN ALIGARH KI @@ MUSLIM SALEEM

یادیں علی گڑھ کی از مسلم سلیم
  • علی گڑھ میری سانسوں میں بسا ہے/؍ علی گڑھ میرے منہ سے بولتا ہے ؍/ جہاں جسکے سبب محوِ ثنا ہے ؍/ مجھے وہ سب علی گڑھ سے ملا ہے/ ؍ دل اپنا چھوڑ آیا ہوں وہاں میں/ ؍ وطن بھوپال بے شک ہو گیا ہے/ ؍ وہ میرس روڈ ہو یا قاضی پاڑہ ؍/ یہ دل اب بھی انھیں کو ڈھونڈتا ہے/ ؍ گلی کوچوں میں اسکے آنا جانا وہاں چوبیس برسوں تک رہا ہے/ ؍ جو ایم۔اے۔او سے اے۔ایم۔یو ہوا ہے/ ؍ وہ سیّد کاثوابِ جاریہ ہے/ ؍ اسے کہتے ہیں مسلم یونی ورسٹی/ ؍ یہاں سے علم کادریا بہا ہے/ ؍ سٹی اسکول کا بھی ذکر کردوں/ ؍ کہ جواک درسگاہِ بے بہا ہے/ ؍ یہیں پہلی غزل میں نے کہی تھی/ ؍ یہیں سے میرے فن کی ابتدا ہے /؍ اک ایم۔اے۔یو برانچ اسکول بھی تھا/ ؍ جو اب تعلیمِ نسواں دے رہا ہے/ ؍ مرے استاد تھے قیّوم صاحب/ ؍ انھیں سے علم کا تحفہ ملا ہے/ ؍چلو اب بات کرلیں کیمپس کی/ ؍ علاقہ یہ بہت ہی پر فضا ہے/ ؍ بہاریں آرٹس فیکلٹی کی مسلمؔ/
    ؍ انھیں سے باغِ جاں اب تک ہرا ہے۔

    علی گڑھ سے ہمارے خانوادے کا رشتہ میرے پرنانا سید عبدالباقی سے شروع ہوا۔ وہ محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج کے ابتدائی ۵ طلبہ میں تھے اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہیں برسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔میری والدہ بیگم امِّ حبیبہ سید عبدالباقی کے منجھلے صاحبز ادے سید عبدالاحد کی نورِ نظر تھیں۔ میرے والد ڈاکٹر سلیم واحد سلیم نے اپنے پھوپھا ڈاکٹر عطا اﷲ بٹ کے دولتخانہ ’’بٹ کدہ‘‘ میں پرورش پاتے ہوئے طبیہ کالج سے تعلیم مکمل کی۔اسی دوران انکی شادی والدہ صاحبہ سے ہوئی۔ میری پیدائش کے وقت والدہ صاحبہ اپنے آبائی قصبہ شاہ آباد [ضلع ہردوئی۔اتر پردیش] گئی ہوئی تھیں جہاں میں تولد ہوا۔ پیدائش سے ۲۴ برس تک میں علی گڑھ ہی میں رہا۔ میں ان خوش نصیب لوگوں میں ہوں جنہوں نے درجہ اوّل سے ہی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے اسکولوں اے۔ایم ۔ یو سٹی برانچ اسکول اور پھر سٹی ہائی اسکول میں تعلیم پائی۔ اے ایم یو برانچ اسکول قاضی پاڑہ میں بالکل گھر کے سامنے تھا۔ ۳ برس کی عمر میں والدہ نے وہاں کے اساتذہ خاص طور پر قیوم صاحب سے یہ کہہ کر داخلہ دلا دیا کہ’’ کھال آ پکی، ہڈیاں ہماری‘‘۔ چنانچہ قیوم صاحب، خلیل صاحب وغیرہم نے علم کو مولیٰ بخش کے ذریعہ کھال کے اندر تک اتارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔کئی بار تو خلیل صاحب کے موٹے ڈنڈے نے میری ہتھیلی پر دم توڑ دیا اور شرم سے دو ٹکڑے ہو گیا۔قیوم صاحب جو قریب کے محلے کلاں محل(جو عرف عام میں کالا محل کہلاتا ہے)قیام کرتے تھے۔اسکول کے بعد گھر ٹیوشن پڑھانے آجاتے تھے۔مارتے تھے لیکن کم، پڑھاتے تھے لیکن اچھا۔انھیں کی رہنمائی میں ۵ ویں پاس کر لی۔
    چھٹے درجے میں داخلہ ایم اے یو سٹی اسکول میں ہوا جو نمائش میدان کے نزدیک واقع ہے۔یہاں بھی والدہ نے ہڈی اور کھال کے مکالمہ کے ساتھ میرا داخلہ کرایا۔جسکے سبب کئی برسوں تک میری ہڈیاں کڑ کڑاتی رہیں۔یہاں کے اساتذہ نے تدریس کے ساتھ تادیب یعنی پٹائی کے منفرد طریقے ایجاد کر رکھے تھے۔لیکن سبھی اساتذہ مخلص اور صلاحیت شناس تھے۔یہی وجہ ہے کہ رسمی ؂تعلیم میں پھسڈی رہنے کے باوجودان اساتذہ نے میری قدرافزائی کی اور آٹھویں درجہ تک پہنچتے پہنچتے مجھے بیک وقت اسکول کرکٹ ٹیم کا کپتان اور ڈرامہ کلب کا سیکریٹری بھی بنا دیا۔ مجھے بھی رسمی تعلیم کے سوا ہر چیز میں دلچسپی تھی۔
    ۱۹۶۸ کی بات ہے، ایک روز کسی سبب کرکٹ کی پریکٹس منسوخ ہو گئی۔میں ٹہلتا ہوا اسکول کے سامنے کی جانب آیا۔لائبریری کے سامنے کافی بھیڑ تھی۔بتایا گیا کہ ڈبیٹ ہونے والی ہے۔میں نے کہا، ہم بھی حصہ لیں گے۔نام لکھوادیا۔موضوع تھا بہار میں قحط سالی ۔ ظاہر ہے میری پہلے سے کوئی تیاری نہیں تھی اور میں نے اس کے قبل کسی ڈبیٹ میں حصہ بھی نہیں لیا تھا۔پھر بھی مجھے دوسرا نعام ملا۔پہلا انعام راحت بن حیرت نام کے ایک لڑکے کو ملا جسے اب لوگ اخترالواسع کے نام سے جانتے ہیں۔ہم بچوں کو ان کے نام پر بہت حیرت ہوتی تھی کیوں کہ انکانام راحت بن حیرت اور والد کا نام حیرت بن واحد تھا۔
    جب میں نے سٹی اسکول میں داخلہ لیا تھا تب اکرم صاحب ہیڈماسٹر تھے۔بے حد وجیہ اور اسمارٹ شخص تھے، سوٹ میں تو غضب کے لگتے تھے۔کینسر میں مبتلاء ہوئے اور امریکہ میں زیر علاج رہ کر اس موذی مرض پر بہادری سے فتح پائی۔آٹھویں تک پہنچے پہنچتے عظیم الحق جنیدی صاحب ہیڈ ماسٹر بنے۔میں کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا۔کھلاڑیوں نے ورغلا دیا کہ لنچ پیکٹ کی رقم میں خرد برد ہوئی ہے۔میں ٹیم کو اسکول واپس لے کر آگیا۔ خوب نعرے بازی اور بحث ومباحثہ کیا۔جنیدی صاحب نے بات کو دل میں رکھ لیا۔کسی بہانے سے انھوں نے مجھے امتحان سے محروم کر دیا اور اس طرح اگلے برس بھی آٹھویں میں ہی پڑھنا پڑا۔وہ بھی اچھے انسان تھے۔مجھے ان سے کوئی گلہ نہیں۔بہت ممکن ہے کہ میں نے اس معاملہ میں ضرورت سے زیادہ رد عمل کیا ہو۔ظاہر ہے کہ اس پھوہڑ حق گوئی کی کچھ قیمت تو مجھے ادا کرنی تھی۔
    ۱۹۷۰ ء میں پری یونی ورسٹی میں داخلے لیا تو لگا ہی نہیں کہ کسی نئی جگہ آ گئے ہیں۔ کرکٹ اور مباحثوں کے سبب میں کیمپس میں ایک جانا پہجانا چہرہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے روایتی انٹروڈکشن کے مرحلے سے بھی نہیں گذرنا پڑا۔ اس دوران کرکٹ اور شاعری کا دور تو جاری ہی رہا ساتھ ہی این آر ایس سی کلب رسل گنج اور مختلف ہاسٹلس کے کامن رومس میں رسائی کے سبب ٹیبل ٹینس اور شطرنج بھی ہابیز میں شامل ہوگئے اور کئی انعامات بھی دلوا گئے۔
    بی اے میں داخلے کے بعد مزاج میں کچھ تبدیلی آئی۔ کرکٹ کھیلنا کم ہو گیا۔ شاعری اور ادب کا جنون بڑھ گیا۔ بی اے میں سیاسیات میں آنرس اور اردو میں ۱۲ کریڈٹ، فارسی میں آٹھ اور باقی کریڈٹ معاشیات اور نفسیات میں تھے۔ اردو کی کلاسیں اٹینڈ کرنے کے ساتھ ساتھ اردو کی طرف رجحان بڑھتا چلا گیا۔ اردو کے اساتذہ میں خلیل الرحمٰن اعظمی صاحب، نادِر علی صاحب، پروفیسر خورشید الاسلام صاحب، قاضی عبدالاستار صاحب اور شمیم حنفی صاحب خاص تھے۔ نادِر علی صاحب کا ایک جداگانہ انداز تھا۔ سفید چغعہ پرلمبی سیاہ ریش۔ ہماری کلاس میں لڑکیوں کی اکثریت تھی۔ لڑکے کل چار تھے۔ انتہائی متشرع ہونے کے سبب نادِ رعلی صاحب کلاس میں سارے وقت آنکھیں بند کئے رہتے تھے۔ درس کے دوران رک کر پوچھتے تھے’’آپ لوگ سمجھ گئیں نا؟‘‘ گویا کہ کلاس میں لڑکے ہوں ہی نہیں۔ اسی دور میں اردو کے انٹرنل ٹیسٹ میں موضوع دیا گیا تھا ’’سر سید بحیثیت نثر نگار‘‘۔ میں نے سر سید کی نثر پر زبردست تنقید کرڈالی۔ پرچہ گرلز کالج کی کسی لکچرر نے جانچا تھا۔ ۱۰ میں سے چھ نمبر تو دئے لیکن نوٹ بھی لگا دیا کہ ’’ برائے مہربانی خیالات میں تبدیلی لائیں‘‘۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اگر خیالات غلط تھے تو فرسٹ کلاس نمبر کس بات کے؟ اس مرحلے پر جناب بشیر بدرصاحب نے رہنمائی کی۔ انھوں نے کہا تمھیں ا؂چھے نمبر اس لئے ملے ہیں کہ تم نے جو کچھ لکھا اس کی توقع بھی اس سطح کے طالبِ علم سے نہیں کی جاسکتی۔ جواب میں تم نے اپنے ذاتی فہم و ادراک سے وہ باتیں لکھیں جو کتابوں میں درج نہیں ہیں۔ بشیر بدرصاحب ان دنوں ایم فل کر رہے تھے اور کچھ کلاسیں بھی ان کے ذمّے کی گئی تھیں۔۱۹۷۲ ء میں آرٹس فیکلٹی میں ایک مشاعرہ ہوا۔ وہاں میں نے اپنی ابتدائی غزل سنائی۔ جب میں اس شعر پر پہنچا ’’ میں بازار سے کافی پردے لایا ہوں۔۔۔اب دیکھوں کیسے رسوائی ہوتی ہے‘‘ تو خلیل الرحمٰن اعظمی صاحب اچھل پڑے اور اس وارفتگی سے داد دی کہ شرکاءِ بزم کو بھی ان کی آواز سے آواز ملانی پڑی (تب مجھے پتہ نہیں تھا کہ خلیل الرحمٰن اعظمی صاحب شعر و ادب کے کس اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ آج ان کی داد میرے لئے کسی بڑے ایوارڈ سے کم نہیں ہے) ۔ آرٹس فیکلٹی کے مشاعرے سے پہلے بشیر بدر صاحب کلا س میں مجھ سے کافی پریشان رہتے تھے کیوں کہ میں اکثر آؤٹ آف سبجیکٹ سوال پوچھ لیا کرتا تھے جنکی تیار ی وہ کرکے نہیں آتے تھے۔ لیکن اس کے بعد سے وہ مجھے کافی چاہنے لگے تھے۔کلاس میں سب لڑکوں سے کہتے ’’دیکھو مسلم سلیم بہترین شاعر ہے۔ آگے چل کر بہت نام کمائے گا‘‘۔ اس کے بعد میں نے بشیر بدر صاحب کے ساتھ بالائے قلعہ (اوپر کوٹ) اور انونا ہاؤس جیسے مقامات پر کئی شعری نشستوں میں حصہ لیا۔ اوپر کوٹ والے مشاعرے میں تو انھوں نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ اتفاقاً اس زمانے میں میرا قیام دددھ پور کی پان والی کوٹھی میں تھا۔ سامنے مزمل منزل کے کوارٹرس میں بشیر بدر صاحب بھی قیام پذیر تھے۔ ان کے کمرے میں میں ، فرحت احساس، صلاح الدین پرویز، آشفتہ چنگیزی وغیرہ اکثر شام کے وقت جمع ہو جاتے تھے۔ ان کی مشہور غزلیں ’’پتھر کے جگر والو‘‘ اور ’’خدا مجھکو ایسی خدائی نہ دے‘‘ اسی دور کی تخلیقات ہیں۔ مجھ فخر ہے کہ میں ان لوگوں میں ہوں جنھوں نے بشیر بدر صاحب کی ان تخلیقات کو انکے ابتدائی مراحل میں نجی ملاقاتوں کے دوران سنا اور داد دی۔
    بی اے سالِ دوم کے دوران قاضی پاڑے والے گھر پر ایک رات سخت بخار کے سبب نیند نہیں آرہی تھی۔قلم اٹھایا اور منتشر خیالات کو مجتمع کر کے لکھنا شروع کردیا جس سے ایک افسانہ وجود میں آیا ۔یہ قلم برداشتہ تحریر بہت ہی مربوط تھی۔ میں نے افسانے کا عنوان رکھا ’’ننگی سڑک پر‘‘ رکھا۔ اتفاقاً انھیں دنوں یونی ورسٹی میں افسانوں کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ ساتھی طلبہ کے اسرار پر میں نے یہ افسانہ مقابلہ میں دے دیا۔ پہلا انعام شارق ادیب کو ملا اور مجھکو تیسرا۔ میرے لئے یہ بہت بڑا اعزاز تھا کیونکہ اس سے پہلے میں نے کوئی افسانہ نہیں لکھا تھا (بعد میں جب میں نے یہ افسانہ الہٰ آباد یونی ورسٹی میں پڑھا تو پروفیسر سید محمد عقیل رضوی نے اسے موپاساں کے ہم پلہ قرار دیا)۔ تقسیم اسناد عصمت چغتائی کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ افسوس کہ کسی سبب میں اس تقریب میں شامل نہ ہو سکا اور عصمت چغتائی سے بالمشافہ ملاقات سے محروم رہ گیا۔
    گھر سے یونی ورسٹی ۶ یا ۷ کلو میٹر دور تھی۔ پیدل جاتا تھا۔ دن بھر وہیں گذرتا تھا۔ صبح کلاسوں ، دوپہر مولانا آزاد لایبریری اور شام دوستوں کے باسٹلز یا پھر این آر ایس سی کلب میں۔ موسم گرما میں مولانا آزاد لایبری کا الگ ہی مزہ تھا کیونکہ وہ ان معدودے چند عمارتوں میں تھی جہاں جا بہ جا کولر لگے ہوئے تھے۔ لائبریری میں داخل ہونے کا بعد بائیں ہاتھ پر سیڑھیاں ہیں۔پہلی منزل پر ایک سیکشن تھا جہاں طلبہ خود کتاب پسند کرکے نکال اور پڑھ سکتے تھے۔ میرا زیاد ہ تر وقت وہیں گذرتا تھا۔اسی سیکشن میں ایک روز ٹیچ یور سیلف بُک سیریز میں عربی سکھانے کی کتاب میرے ہاتھ لگی جس سے میں نے عربی الفاظ میں حروف کی بدلتی ہوئی ساخت پر دئے ہوئے چارٹ کو نقل کیا اور اس میں اردوکی مطابقت سے تبدیلیاں کیں۔ اس واقعہ سے کچھ دن پہلے کی بات ہے۔ قاضی پاڑہ کے ایک ساکن ڈاکٹر غیور احد کا بیٹا عامر تیسری کلاس میں اردو میں دو سال سے فیل ہورہا تھا۔ انھوں نے نہ جانے مجھے کیا سمجھا کہ عامر کو ٹیوشن پڑھانے پر مامور کر دیا۔ اس چارٹ کے ذریعہ میں نے عامر کو پڑھایا تو وہ کلاس میں اول آیا۔ اب اس چارٹ کی افادیت پر میرا یقین پختہ ہو گیا۔اسی کی بنیاد پر بھوپال آکر میں نے روزنامہ آفتابِِ جدید میں اردو لکھنا خود سیکھئے عنوان سے روانہ کالم لکھا۔ اس کی کتابت بھی میں خود کیا کرتا تھا۔ بعد میں میرٹھ اور جودھ پور کے دو لوگوں نے خط کے ذریعہ اسے کتابی شکل میں شایع کرنے کی اجازت طلب کی جسے میں نے منظوری دے دی۔ اس طرح میرا نام لئے بغیر ان لوگوں نے وہ اردو قاعدے شایع کئے۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے نام کو نہ سہی کام کو تو انھوں نے آّگے بڑھایا اور اردو کو اس کا فائدہ ملا۔
    ۱۹۷۳ میں میں نے سٹوڈینٹس یونین کا الیکشن بھی لڑا تھا۔ اس میں آج کے مشہور افسانہ نگارطارق چھتاری میرے پروموٹر تھے۔ میری لا پرواہی کے سبب چند ووٹوں شکست ہوگئی۔ پھر بھی اس سے فائدہ ہوا کیونکہ مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا۔میرے نام کا پوسٹر جو آرٹس فیکلٹی کی انیکسی کی دیوار پر تقریباً دو منزل کی اونچائی تک لگایا گیا تھا، مسلم یونی ورسٹی کی تاریخ میں سب سے لمبا چوڑا پوسٹر تھا جو انتخابات کے کئی مہینوں بعد تک چسپاں رہا۔ ۱۹۷۴ میں میں نے ایل ایل بی میں داخلہ لیا۔ معاشی بحران کے سبب میں نے سرسید حال کینٹین میں منتظم کی ملازمت کر لی جو لا فیکلٹی سے متصل ہے۔ اس دور میں اردو کے کئی
    طلبہ جو بعد میں شعب�ۂ اردو میں لکچرر بھی ہوئے کینٹین میں میرے اشعار پر داد کے بدلے مفت خوری کرکے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک صدرِ شعبہ تک پہنچے ۔انھوں نے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا۔ میں نے غزل برائے اشاعت ارسال کی تو مشورہ دیا کہ موجودہ دور کے رجحان کے مطابق غزلیں کہوں اور غزل شائع نہیں کی۔کئی برس بعد ملاقات ہونے پر میں نے ان سے پوچھا کہ کینٹین کے زمانے میں توّ آپ مجھ کو جدیدیت کا بہترین شاعر بتاتے تھے ، اب کیا ہو گیا؟ تو مسکرا کر بولے ’’وہ تو میں مذاق کرتا تھا‘‘۔ غالباً ان کی تعریف آملیٹ، بریڈ، سوس اور چائے کے لئے تھی۔ اسی برس والدہ صاحبہ نے جو برادرِ کلاں کے پاس الہٰ آباد منتقل ہوگئی تھی، مجھے وہاں بلا بھیجا۔ کوئی بہن نہ ہونے کے باعث میں ہی والدہ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ اس لئے میں تعلیم نا مکمل چھوڑ کر الہّٰ آباد منتقل ہوگیا اور وہاں سے عربی میں ایم اے کیا۔ جب والدہ اور بھائی بھوپال منتقل ہوئے تو میں بھی یہاں چلا آیا۔ اور یہیں کا ہو رہا۔
    چلتے چلتے میں علی گڑھ کی ان دو عظیم شخصیات کا ذکر دوں جن کا مجھ پر گہرا اثر مرتب ہو ا ہے۔ ان میں ڈاکٹر عطاء ا ﷲ بٹ اور جناب سید عبدالاحد شامل ہیں۔
    ڈاکٹر عطاء ا ﷲ بٹ صاحب امراضِ چشم کے معالج تھے اور جرمنی سے ایم۔ڈی کی سند حاصل کی تھی۔ مسلم یونی ورسٹی کے عمائدین ان کی قابلیت سے از حد متاثر تھے۔ اسی لئے انھیں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی طبّیہ کا لج کا موسّس پرنسپل مقرر کیا۔ میرس روڈ چوراہے پر ڈاکٹر صاحب کو کئی ایکڑ کا رہائشی پلاٹ دیا گیا جس پر انھوں نے عالی شان کوٹھی ’’بٹ کدہ‘‘ تعمیر کی ۔ میری دادی محترمہ فخرالسادات ایران کے قاجاری خاندان کی شاہزادی تھیں۔ دادا بنیک آف تہران میں جنرل منیجر تھے۔ وہیں والد صاحب ڈاکٹر سلیم واحد سیلم اور پھوپھیاں اختر نذیر صاحبہ اور شمسی بیگم تولد ہوئیں۔ ان لوگوں کی مادری زبان فارسی اور ثانوی تعلیم کی زبان فرانسیسی تھی۔والد صاحب ۱۱ ؍ برس کے تھے کہ محترمہ فخرالسادات انتقال فرما گئیں۔ تب ڈاکٹر عطاء ا ﷲ بٹ صاحب والد صاحب کو تعلیم اور پرورش کے لئے علی گڑھ لے آئے جب کہ
    پھوپھیوں کی پرورش کی ذمہ داری لاہور میں ان کے چچا ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے اٹھائی۔ بے انتہا امیری کے با وصف ڈاکٹر عطاء ا ﷲ بٹ صاحب کا مزاج قلندانہ تھا اور وہ بالکل عام انسان کی طرح رہتے تھے۔ کار کے متحمل ہونے کے باوجود انھوں نے ہمیشہ سائیکل سواری کی۔ بنگلہ بھی انھوں نے خود نہیں بلکہ کسی معتقد نے بنواکر دیا تھا۔ غریب پرور اور سخی تھے۔ خوش مزاجی اور بذلہ سنجی ان کے جوہر تھے۔
    جناب سید عبدالاحد نے علی گڑھ سے بی۔اے پاس کیا تھا اور علی گڑھ بک ڈپو میں منیجر ہو گئے تھے۔ بہترین کریکٹر تھے۔ سکسر مارنے میں تو ایکسپرٹ تھے۔ میچ کے دوارن تماشائی جدھر سے آواز لگاتے، ادھر سکسر ماردیتے تھے۔ ان کے سکسر بہت لمبے ہوتے تھے اور اکثر ویلنگڈن پویلین کی چھت کے اوپر سے ہوتے ہوئے باہر سڑک پر گرتے تھے۔دوارانِ تعلیم نواب کوروائی جناب سرور علی خان جناب سید عبدالاحد کے ہم درجہ تھے۔ کوروائی میں تاجپوشی کے بعد انھوں نے جناب عبدالاحد کو اپنا اے۔ڈی۔جی نامزد کیا۔ نانا محترم بین الریاستی کرکٹ میچوں میں بھی کوروائی کا پرچم بلند کرتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ علی گڑھ آگئے اور قاضی پاڑہ ہی میں مقیم رہے۔ مجھ میں شاعری کا شوق انھیں کی رہمنائی سے پروان چڑھا۔ بہت چھوٹی عمر سے ہی وہ مجھے مشاہیر کے چیدہ اشعار مع تشریح سناتے اور میری تربیت فرماتے تھے۔ غالباً انھوں نے مجھ میں چھپے شاعر اور ادیب کو پہچان لیا تھا۔
    ان دونوں عظیم شخصیات کو خراجِ عقیدت کے بطور میں نے اپنے بیٹوں کے نام عطا ء اﷲ فیضان اور عبدالاحد فرحان رکھے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ دونوں بچے بھی اپنے ہم نام اسلاف کا نام روشن کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔

No comments:

Post a Comment